counter easy hit

لاہور ہڑتال کامیاب مگر خواتین محفوظ نہ رہیں

Sana Mirza

Sana Mirza

تحریر:قرة العین ملک
پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کیخلاف احتجاج کے ”پلان سی ”کے تحت فیصل آباد اور کراچی کے بعد لاہور میں بھی اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔پی ٹی آئی نے اپنے اعلان کے برعکس 18کے بجائے 30 سے زائد مقامات پر دھرنے دیئے اور اہم شاہراہوں کو ٹائر جلا کر اور مختلف رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کئے رکھاجس کے باعث شہر عملی طور پر مفلوج رہا ،بیشتر نجی تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ کئی مقامات پر پٹرول پمپس بھی بند رہے تاہم مرکزی شاہراہوں سے ہٹ کر واقع مارکیٹیں اور دکانیں کھلی رہیں اور کاروبار ہوتا رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں کی جان متوالیاں ایک بار پھر منچلوں اور بدتہذیب افراد کا شکار بن گئیں

تحریک انصاف کے نوجوانوں نے احتجاج میں شریک خواتین اور میڈیا ورکرز سے شدید بدتمیزی کی جس پر عمران خان نے برہمی کا اظہار کیا۔پنجاب اسمبلی کے سامنے عمران خان کے خطاب کیلئے بنائے گئے سٹیج کے پاس خواتین کے لئے کوئی الگ جگہ مختص نہیں کی گئی جس کی وجہ سے خواتین اور نوجوان گھل مل گئے اور نوجوان خواتین پر آوازیں کستے رہے اور نازیبا حرکتیں کرنا شروع کر دیں جس پر متاثر ہ خواتین نے شور مچانا شروع کیا تو سٹیج سے ڈاکٹر یاسمین راشد بار بار نوجوانوں سے خواتین کا احترام کرنے اور پرامن رہنے کی درخواست کرتی رہیں لیکن نوجوان باز نہ آئے جس پر خواتین نے بچاؤ کیلئے پولیس سے بھی مددمانگی لیکن تمام آپشن ناکام ہونے کے بعد خواتین کی کثیر تعداد عمران خان کا خطاب سنے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی

کئی خواتین نے شر انگیزی کرنے والے کارکنوں سے خود کو بچانے کے لئے ڈنڈوں کا استعمال بھی کیا۔ نوجوانوں نے پارٹی خواتین سے بدتمیزی کی وہیں صحافی خواتین اور دیگر ورکرز سے بھی بدتمیزی کرتے رہے۔ عمران خان نے لاہور میں میڈیا ورکرز اور خواتین شرکاء کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے مقامی قیادت کی سرزنش کی اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایت کی۔تحریک انصاف کے کارکنوں نے احتجاج کے دوران صحافیوں کو بھی تشددکا نشانہ بنایا۔ فیصل چوک میں احتجاج کے دوران کوریج کے لئے ڈیوٹی دینے والی خاتون اینکر پرسن ثناء مرزا اور امین حفیظ پر بوتلیں اور دیگر اشیا پھینکی گئیں جس کی وجہ سے خاتون صحافی کارکنوں کی بدتمیزی اور تلخ جملوں کی وجہ سے رونے لگی۔

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا گھیرائو کیا گیا جبکہ احمد فراز پر بھی پتھرائو کیا گیا۔ تمام صحافی تنظیموں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے صحافیوں پر تشدد اور بدتمیزی کی شدید مذمت کی ہے ۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے خاتون صحافی اور عملے پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ خاتون صحافی سمیت دیگر صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کی شناخت کی جائے۔ پی ٹی آئی کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں نے اعلان کردہ 18مقامات پر رکاوٹیں ، ٹرالیاں کھڑی کر کے ، پتھر ڈال کر اور ٹائر نذر آتش کر کے دھرنے دینا شروع کر دیئے بعد میں یہ احتجاج 30 سے زائد مقامات تک پھیل گیا۔پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق این اے 118 کی تنظیم نے شاہدرہ چوک،119 نے بھاٹی گیٹ،120 نے پی ایم جی چوک ،این اے 121 کی تنظیم نے بابو صابو ،این اے 120,122 نے مال روڈ اور چیئرنگ کراس ،این اے 123 کے رہنمائوں اور کارکنوں نے جی ٹی روڈ شالیمار، این اے 124 نے مغلپورہ،این اے 125 نے والٹن اور ڈیفنس چوک ،این اے 126 نے لبرٹی ،این اے 127 کی تنظیم نے اکبر چوک ٹاؤن شپ ، این اے 128 کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھٹہ چوک، این اے 129 نے چونگی امرسدھو، ٹائیگر فورس نے مال روڈ، یوتھ ونگ نے بھاٹی چوک ، آئی ایس ایف کے نوجوانوں نے مزنگ چونگی اور لا ئرز ونگ نے چوبرجی کو بند کیا۔

مال روڈ، شالیمار ، بھاٹی چوک سمیت دیگر مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے زبردستی رکاوٹیں عبور کرنے پر عام شہریوں سے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بھاٹی چوک میں کارکنوں نے کئی موٹر سائیکلوں کی چابیاں چھین لیں۔ برانڈرتھ روڈ پر گو نواز گو کے نعرے لگانے پر لیگی کارکنوں نے پی ٹی آئی کے کارکن کو قابو کر لیا اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کے آنے پر حالات کشیدہ ہو گئے تاہم مرکزی رہنمائوں اور پولیس نے کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیا۔چونگی امرسدھو میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے میٹرو بس سروس کے روٹ کو پتھر پھینک کر اور آگ لگا کر بند کر دیا اور اس دوران وہاں آنے والی بس پر پتھرائو کیا گیا جس کے بعد ڈرائیور بس کو بیک گیئر لگا کر واپس لے گیا۔ شاہ جمال اور دیگر مقامات پر بھی میٹرو بسوں پر پتھرائو کیا گیا

جس سے مسافروں کے معمولی زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جس کے بعد میٹرو بس سروس معطل رہی۔پی ٹی آئی کی طرف سے مختلف انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برجز کو بھی رکاوٹیں کھڑی کر کے بند رکھا گیا۔تاجروں کی طرف سے شاہ عالم مارکیٹ میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر زبردستی دکانیں بند کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ مرکزی شاہراہوں پر واقع مارکیٹیں بند رہیں جبکہ تاجر کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنی دکانوں کے باہر جمع رہے۔ شاہراہوں سے ہٹ کر واقع تمام مارکیٹیں اور دکانیں کھلیں رہیں اور وہاں پر کاروبار ہوتا رہا۔ چونگی امر سدھو کے مقام پر پی ٹی آئی کارکنوں نے دکانیں بند کرانے کی کوشش کی جس پر دکانداروں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوئی جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں کی موجودگی پر پی ٹی آئی کے کارکن مزید مشتعل ہوگئے۔

پی ٹی آئی کے کارکن گو نواز گو اور اپنی قیادت کے حق میں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن رو عمران رو اور اپنی قیادت کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے آمنے سامنے آنے پرحالات کشیدہ ہو گئے تاہم پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ شدید احتجاج کے باعث قلعہ گجر سنگھ میں کوئین میری کالج اورانفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں ہونے والے پرچے ملتوی کر دیئے گئے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے متعد د پرائیویٹ سکول بند رہے جبکہ سرکاری دفاتراور کھلنے والے تعلیمی اداروں میں بھی حاضری معمول سے کم رہی۔امن و امان برقرار رکھنے کیلئے شہر بھر میں 20ہزار سے زائد اہلکار تعینات رہے جبکہ معطل اہلکاروں کو بھی پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث بحال کردیا گیا۔

لاہور، والٹن، بادامی باغ، کینٹ، شاہدرہ اور کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشنز پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ 15دسمبر کے روز عملی طورپر شہر پر تحریک انصاف کے کارکن حکومت کرتے نظر آئے۔ایک طرف تحریک کے کارکن نت نئے انداز میں احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے۔میوزک بجتا رہا۔نعرے بازی ہوتی رہی۔کہیں کوئی پیٹ پر پتھر باندھے زمین میں لیٹا نظر آیا تو کوئی دھمال اور بھنگڑا ڈالتا رہا۔کہیں پپٹ شو تو کہیں ناچتے گھوڑے نظر آئے۔چونگی امرسدھو کے شنگائی پل سے منچلاکسی شادی میں آنے والے باراتی کی طرح کرنسی نوٹ پھینکتا رہا۔جبکہ دوسری طرف ان دھرنوں کی وجہ سے ایمبو لینسیں بھی رکتی رہیں۔ اور مریض بھی مرتے رہے۔ مال روڈ پر جی پی او چوک کے نزدیک زمین پر لیٹ کر سٹرک بلاک کرنے والاکارکن ،ایک ناراض شہری کے غصے کا شکار ہوکر موٹر سائیکل تلے ٹانگیں تڑوابیٹھا۔

دھرنوں و احتجاج کا بائیکاٹ اوردوکانیں و مارکیٹیں بند نہ کرنے کے بینر اور سٹیمر آویزاں کرنے والے تاجر رہنمائوں کی اکثر مارکیٹں بند نظر آئیں۔ مجموعی طور پر شہر میں کہیں بھی حکومتی رٹ نظر نہ آئی۔پولیس اور ضلعی انتظامیہ شہریوں کی بجائے مظاہرین کو سہولیات کرتے رہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی۔شہر میں چنگ چی اور آٹو رکشے سے لیکر بڑی گاڑیاں انتہائی کم تعداد میں نظر آئیں۔ البتہ دو ٹائروں کی گاڑی کے سوار فائدے میں رہے۔کئی گاڑیوں کے ڈرائیور ہجوم اور دھرنوں سے بچ نکلنے کے لیے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ً گو نواز گو ً اور وزیر اعظم عمران خان ً کے نعرے لگاتے رہے۔ جبکہ بعض نے دھرنو ں کے مقام سے گزرنے پی ٹی آئی کے جھنڈوں کو رومال کی طرح عقبی شیشوں سے باندھ لیا۔