counter easy hit

سرسید کا وژن اور موجودہ دور کے چیلنج

ڈاکٹر ضیائ القیوم

وائس چانسلر گجرات یونیورسٹی
قوموں کی ترقی کا دارومدار ہر دور میں علم و تہذیب کی ترقی کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ موجودہ دور میں بھی جن قوموں کے پاس علم و ٹیکنالوجی کا ہتھیارہے، وہی قومیں دوسروں پر حکمرانی میں پیش پیش ہیں۔ عقل ایک ایسی انسانی قوت ہے جو تجسس کے سہارے پروان چڑھتی ہے اور علم انسانی عقل کو معراج تک پہنچنے کیلئے ضروری لوازمات مہیا کرتا ہے۔ مختلف ادوار میں دنیا کی مختلف قوموں میں علمی حرکت پید اہوتی رہی اور یوں انسانی تہذیب و تمدن آہستہ آہستہ ترقی کی مختلف منازل کو طے کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صاحب فہم و ارادہ اور صاحب عقل مخلوق کے طور پر پیدا کیا اور اسے وہ عقلی قوت بخشی جس کے ذریعے اسے دنیا کی دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز و ممیز رہنے کا فخر حاصل ہوا۔انسان کی عقلی دنیا میں اختلاف رائے کی ہمیشہ سے ہی کثرت رہی اور یہی اختلاف رائے علم کو پروان چڑھانے کا سبب بنتا رہا۔ برصغیر پاک و ہندمیں انیسویں صدی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں پر صدیوںحکمرانی کرنے والے مسلمانوںپر ادبارکی حالت چھائی ہوئی تھی۔ مغربی طاقتوں کی آمدنے جو پہلے پہل یہاں پر سوداگروں کے روپ میں آئے تھے، یہاں کی سماجی و سیاسی حالت میں ایک ہلچل بپا کر دی تھی۔ ہندو جسے صدیوں تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہنے کا قلق تھا،اب آگے بڑھ بڑھ کر ان بیرونی طاقتوں کی خدمت میں پیش پیش تھا۔مسلمانوں کی سیاسی حالت تودگرگوں ہوئی مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ نئی علمی حرکات کو قبول کرنے میں بھی تذبذب کا شکاردکھائی دیتے تھے مگر قدرت کا دستور ہے کہ وہ جب کسی قوم کی حالت حد سے زیادہ بگڑنے لگتی ہے تو اُسی میں سے چند ہستیوں کو اس کی راہنمائی پر مامور کر دیتی ہے۔ انیسویں صدی کی مُسلم قوم میں جہاں اور بہت سی نامور ہستیاں قوم کی راہنمائی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں، انہیں میں ایک نامور اور قد آور ہستی سرسید احمد خاں کی بھی تھی۔ سرسید نے ایک ماہر نباض کے دست شفقت کی طرح اپنی تمام تر توانائیاں مسلم قوم کا مرض پہچاننے اور اس کا علاج بہم پہنچانے میں صرف کر دیں۔کمال تدبر سے انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی و کسمپرسی کے تمام امراض کا علاج تعلیم کی صورت میں نہ صرف تجویز کیا بلکہ اس کیلئے سر توڑ کوشش بھی کی۔ حیات سرسید پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کا ایک عام انسان ہوتے ہوئے بھی انہوں نے خاص معاملات میں قوم کی راہنمائی و نگہبانی کا فرض بطریق احسن سرانجام دیا۔ یہاں پر سرسید کی زندگی کے حالات و واقعات بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ ہماری غرض اس کارنامہ کو بیان کرنا ہے جو سرسید نے مسلمانوں کی علمی، معاشرتی اور سماجی خدمت کے طور پر سرانجام دیا۔ سرسید بطور ایک مخلص مصلح مسلمان قوم کو زندگی کے ہر شعبہ میں پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی اقدار اور مذہبی احساسات کا دامن تھامے ہوئے بھی زندگی کی لہر کے ساتھ رواں دواں رہے۔ اسی امر کے پیش نظر آپ نے علمی اداروں کے قیام کی جانب اپنی توجہ کو مبذول کرتے ہوئے مختلف جگہوں پر مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کیلئے سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لانا شروع کیا۔ اگرچہ سواد اعظم نے سرسید کی راہ میں روڑے اٹکائے اور انکے وضع کردہ نظام تعلیم کو کافرانہ قرار دیتے ہوئے مسلم قوم کوصحیح راہ سے بھٹکانے کی ہزاروں کوششیں کیں مگر سرسید اپنی دھن کے پکے نکلے اور نہایت خلوص کے ساتھ اپنے وضع کردہ پروگرام پر عمل درآمد جاری رکھا کیونکہ ان کے پیش نظر کسی ایک فرد کی اصلاح نہ تھی بلکہ وہ ایک ایسے مسلم معاشرہ کی تشکیل کے متمنی تھے جو نئے حالات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے برصغیر میں مسلم قوم کے تشخص کو برقرار رکھنے کا علمبردار بن سکے۔سرسید نے جس وقت اپنی تحریک ِاصلاح کا آغاز کیا، مسلمانان برصغیر پاک و ہند انتہائی فکری انتشار کا شکار تھے۔ ایسے میں سرسید روشنی کی ایک ایسی کرن بن کر ابھرے جس نے امید کے ہزاروں دئیے جلا دئیے۔ برصغیر میں اجتہاد اور وشن خیالی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں سب سے مؤثر اور تاریخی کردار سرسید کا ہی نظر آتاہے۔ان کی تعلیمی تحریک اور انگریز دوستی پر لاکھ تنقید کی جائے لیکن ان کی پالیسوں سے جو انہوں نے مسلم قوم کو اس کا جائز مقام دلوانے کیلئے اختیار کیں، اختلاف مشکل ہی سے ناممکن ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کو قومی سطح پر آج جن بحرانوں کا سامنا ہے ان بحرانوں کا حل تلاش کرنے کیلئے سرسید کی فکر ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ علم ایک ایسا مینارۂ نور ہے جو گمبھیر قومی مسائل کو حل کرنے کیلئے سب سے بڑا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں قومی لحاظ سے آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم نظام تعلیم کو درست سمت اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے نوجوان طلبہ کی نسل نو کو اس قابل بنا دیں کہ وہ مستقبل قریب میں قومی قیادت کا فریضہ خلوص اور دیانتداری کے ساتھ سنبھالنے کے قابل ہو جائے۔ موجودہ قومی تناظر میں نوجوان طلبہ کی علمی و فکری تربیت میں سرسید کی تعلیمی سوچ کو اپناتے ہوئے ہم اقوام عالم کی صف میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔آج ترقی و خوش حالی کیلئے ہمیں روشن اور مجتہدانہ فکرِ نو کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سرسید کی فکر ہماری راہنمائی کر سکتی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website