counter easy hit

تعلیمی اداروں کی زبوں حالی۔ چند تجاویز

عابد تہامی

سیاستدانوں کیلئے یہ بات خوشی کا باعث ہویا نہ ہو مگر اس ملک کے عوام آئین پاکستان میں 18ویں ترمیم سے بہت خوش تھے کہ اختیارات صوبوں کے پاس آگئے ہیں، اب سولہ سال تک مفت تعلیم شہریوں کو دینے کی صوبائی حکومت اپنی آئینی اور بنیادی ذمہ داری پوری کریگی۔ کیونکہ وفاق نچلی سطح تک تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے پا رہا۔ اس وقت پاکستان بھر میں پہلی سے پانچویں کلاس تک کی عمر کے جو 67لاکھ 52ہزار بچے اسکول نہیں جاتے اور ایک لاکھ 90ہزار اسکول جو پانی، بجلی، دیواروں اور باتھ روم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، جہاں 4کروڑ 22لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، انہیں یہ سب سہولتیں مل سکیں گی اور تعلیمی نظام میں بہتری آئیگی۔ لیکن تعلیمی حوالے سے صوبائی حکومتوں کی ترجیحات اور جس طرح کے رویے دکھائی دے رہے ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ خود تعلیمی
اداروںکی تباہی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ابھی ہم پنجاب حکومت کی بات کرتے ہیں جو پنجاب کو پڑھانے لکھانے کے سب سے زیادہ دعوے کرتی ہے۔ جس کو صرف صوبائی دارالحکومت میں30اکتوبر 2016ء تک 3لاکھ 90ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف پورا کرنا ہے جبکہ پنجاب بھر کے 36اضلاع میں38لاکھ بچوں کو اسکول لانے کا ہدف ہے مذکورہ ہدف پورا کرنے کیلئے صرف لاہور کے 1122 اسکولوں میں47سو 82مزید کمرے بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں پہلے ہی 26لاکھ 39ہزار 426بچے زیر تعلیم ہیں۔ 30 اکتوبر 2016 ء تک یہ ہدف پورا ہوتا کہیں نظر نہیں آتا۔ صرف ایک مثال سن لیجئے کہ لاہور کے 22 اسکول ایسے ہیں جو کئی دہائیوں سے کرائے کی عمارتوں میں چل رہے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ 90فیصد اسکول لاہور کے اہم علاقوں میں موجود ہیں۔صوبائی حکومت نے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے کئی غیر موثر پلان اور غیر فطری پالیسیاں بنائی ہیں۔ ایک فیصلہ یہ کیا گیا کہ ا سکولوں کو پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے اس کیلئے پہلے مرحلے میں 48 سو 80پرائمری اور 188ہائی اور ہائر سکینڈری اسکول نجی شعبہ کے حوالے کر دیئے، مزید7ہزار اسکول نجی شعبے کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق 31 دسمبر 2016ء تک15ہزار ا سکول پیف کے حوالے کئے جانے ہیں جبکہ 2018ء تک پنجاب بھر کے 53ہزار ا سکول حوالے کئے جا ئینگے۔ جس سے 2لاکھ پندرہ ہزار کے قریب اساتذہ کے بیروز گار ہونے کا امکان ہے۔ گو اس کیخلاف اساتذہ کئی ماہ سے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں مگر حکومت پرائمری اور مڈل کی سطح پر اپنے نئے پلان اور پالیسی پر عملد رآمد کر رہی ہے اور ایسے پرائمری اسکول جن میں طلبہ کی تعداد ایک سو سے کم ہے انہیں قریبی اسکولوں میں ضم کر رہی ہے۔ دوسری طرف لاہور میں17سرکاری اسکولوں کو سینٹرل آف ایکسی لینس بنانے کیلئے 66 کروڑ روپے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اپنے ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے لاہور کے 13 اسکول دانش اسکولز اتھارٹی کے سپرد کر دیئے گئے، لیکن افسوس یہ دانش ا سکول اتھارٹی کی ناکامی کے بعد پہلے فیز میں ہی 2سرکاری ا سکول واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔دوسری طرف دانش اسکولوں میں75کروڑ 90لاکھ روپے کی مالی بدعنوائیوں کا سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا ہے۔ گو عدالت عظمیٰ نے نیب پنجاب کو نو مبر کے پہلے ہفتے تک ذمہ داران کیخلاف کارروائی کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ مگر نیب پر مختلف سیاسی دبائو کیوجہ سے یہ کیس بھی دوسرے کیسوں کی طرح الجھا دیا جائیگا۔حکومت پنجاب کو جب یہ واضح نظر آرہا ہے کہ وہ مطلوبہ وقت میں اپنے تعلیمی اہداف حاصل نہیں کر پائیگی تو اس نے تعلیمی اداروں کی نجکاری کرنے کیساتھ ساتھ ایک نیا ڈھونگ رچایا ہے کہ پنجاب کے گرلز ا سکولوں میں مرغیاں پالنے کے منصوبے کیلئے 32کروڑ روپے مختص کر دیئے تاکہ اگر بچیاں تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو کم از کم مرغیاں پالنے کا بزنس تو کر لیں گی۔مستقبل میں تعلیمی اداروں کا کیا منظر دکھائی دے رہا ہے اس حوالے سے سابق ڈی پی آئی اسکولزنے ایک خط لکھا ہے وہ پڑھ لیجئے۔ پھر مزید بات کر تے ہیں۔ ’’ بعض اوقات تاریخ بڑی بے رحمی سے اپنے آپکو دھراتی ہے۔ بھٹو مرحوم نے سوشلز م کا نام استعمال کرتے ہوئے تمام چھوٹے بڑے کارخانوں کو قومی تحویل میں لیا تو اسکی زد میں بہت سے نجی تعلیمی ادارے بھی آگئے، اور یہ منصوبہ بدقسمتی سے معاشی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور تعلیمی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان۔ یہ تعلیمی ادارے جو ڈسٹرکٹ کونسلز، میونسپل کمشنر اور کارپوریشنز کے تحت کام کرتے تھے اب وہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آگئے جس سے ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں عقل مندانہ اور دور اندیش فیصلے کرنے کی بجائے صرف اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں۔اب پنجاب حکومت نے پرائمری اور ایلیمنٹری ا سکولوں کو نجی مالکوں کے حوالے کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قومیائے تعلیمی اداروں کی طرح بغیر سوچے سمجھے کیا ہے۔ جو نہ صرف عام شہریوں کی فلاح کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اساتذہ کرام کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ جس قدر بڑی تعداد میں اساتذہ کو انکے گھروں سے دور ٹرانسفر کیاجارہا ہے اس سے انتظامی معاملات بہتر ہونیکی بجائے خراب ہونگے۔ یہ بات کرنا یہاں مناسب نہیں ہوگی لیکن جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ورلڈ بنک اور دوسری بیرونی امداد کے ذریعے،پنجاب میں تعلیمی منصوبے چلائے گئے۔ کئی پرائمری ا سکول بنے،تعلیم کو مڈل تک عام کرنے کیلئے اسکولوں کے معیارکو بہتر بنایا گیا۔ ورلڈ بنک نے اسکول کونسلزبنانے کا پروگرام شروع کرایا۔ جن کا مقصد صرف انتظامی معاملات کی تربیت فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ اسکے تحت اضافی کمروں کی تعمیر کی بھی امید تھی اور یہ بھی امید تھی کہ پنجاب حکومت ان کونسلز کی پشت پناہی کر یگی مگر ان کو رد کر کے ا سکول نجی مالکوں کے حوالے کئےجارہے ہیں۔ پنجاب حکومت کا ڈی نیشنلائزیشن کا یہ فیصلہ ایک بار پھرتعلیم کو تباہی کے دہانے پر لے جائیگا۔ اسے یہ فیصلہ واپس لینا چاہئے۔ ‘‘آخر میں اس حوالے سے چند تجاویز حکومت کے سوچنے کیلئے پیش کررہا ہوں،جو تعلیمی اداروں کی تباہی کو بچانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ 1۔پرائمری سے میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ہر ضلعی حکومت کے پاس ہونی چاہئے۔2۔ضلع کی آبادی کو مدنظر رکھ کر تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہئیں۔ 3۔ان تعلیمی اداروں کو ضلع سے حاصل ہونیوالے وسائل سے چلانا چاہئے۔ جبکہ صوبائی حکومتوں کو سالا نہ ترقیاتی ا سکول گرانٹ فراہم کرنی چاہئے۔ 4۔یہ ادارے غیر منافع بخش ہونے چاہئیں۔ یونین کونسل کی سطح پر والدین اور تعلیمی ماہرین پر مشتمل غیر سیاسی اسکول کونسلزقائم کرنی چاہئے، جو نہ صرف فنانس کے معاملات بلکہ تعلیمی معیار کو بھی مانیٹر کرے اور ضلع بھر کے تعلیمی اداروں کے درمیان مقابلے کی فضا پیدا کرے۔5۔پرائمری سے میٹرک تک نجی سطح پر صرف غیر منافع بخش کی بنیاد پر ادارے قائم کرنیکی اجازت ہونی چاہئے۔6۔ایسے ادارے جو مقابلے میں آگے آئیں انہیں ضلعی اور صوبائی حکومت کی طرف سے اسکالر شپ کی مد میں فنڈز دیئے جا سکتے ہیں۔7۔ تمام تعلیمی اداروں کا نصاب، تدریس کی زبان، اور سہو لتیں ایک جیسی ہونی چاہئیں۔کالم کی طوالت کے پیش نظر مزید بات پھر ہوتی رہے گی،لیکن تعلیمی نظام کوتباہی سے بچانے کایہ ایک آسان سانسخہ ہے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website