counter easy hit

شہباز شریف کی پکی چھٹی

Shahbaz Sharif's real holidayاسلام آباد: تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے شہباز شریف ڈیل کی کوشش کررہے تھے لیکن ان کی ڈیل پٹ گئی، افطار ڈنر میں ن لیگ کی شرکت اس بات کی علامت تھی کہ اب ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ چلے گا۔

تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے شہباز شریف ڈیل کی کوشش کررہے تھے لیکن ان کی ڈیل پٹ گئی ، افطار ڈنر میں ن لیگ کی شرکت اس بات کی علامت تھی کہ اب ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ چلے گا ، پیپلز پارٹی میں آصف زرداری پیچھے چلے گئے اور بلاول کو آگے کیا جو بات کی علامت ہے کہ اب پیپلز پارٹی میںبھی بلاول کابیانیہ چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا افطار ڈنر اس بات کا اظہار تھا کہ اپوزیشن جماعتیں بھی مولانا فضل الرحمان کے بیانیے سے متفق ہوگئی ہیں، اب اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی دھوکہ نہیں دیں اور ڈیل کی کوششوں میں نہ لگ جائیں تو یہ حکومت کیلئے پریشانی کی بات ہے۔ پروگرام میں شریک سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ افطار ڈنر سے مجھے کسی تحریک کی توقع نہیں تھی لیکن اس سے جو پورے ملک میں ہلچل مچی ہے، ا س سے یہی ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک اب جس جگہ پہنچ چکی ہے، اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، جس وقت اپوزیشن کا افطار ڈنر ہورہا تھا، اس وقت عمران خان بھی فنڈ ریزنگ تقریب میں شرکت کررہے تھے لیکن وہ اس موقع پر بھی جب فنڈریزنگ تقریب ہوتی ہے، سیاسی بات کرنے سے بات نہیں آتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کے اکٹھا ہونے سے پریشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئر مین نیب نے جو رویہ اختیار کیا ہے، یہ جسٹس ثاقب نثار کاتھا کہ فیصلہ کرنے کے بعد عوام میں آکر قسمیں کھاتے تھے کہ یہ کام میں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ فواد حسن فواد نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چیئرمین نیب بننے کی مخالفت کی تھی، ان کاقصور یہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کو رعشہ ہے کہ ان کا ہاتھ کانپتا ہے لیکن یہ کہہ رہے تھے کہ ڈر کی وجہ سے آصف زرداری کا ہاتھ کانپ رہا تھا، اتنا شرمناک انٹرویو جتنا چیئرمین نیب نے دیا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ پروگرام میں شریک سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ اپوزیشن کی نہ اتحاد کے حوالے کوئی بات آگے بڑھی ہے اورنہ تحریک کے حوالے سے کوئی بات آگے بڑھی ہے ، اس سے حکومت کوپریشان تو نہیں ہونا چاہئے لیکن جس طرح وزراءکے بیانات آئے ہیں ، اس سے پتہ چلتاہے کہ اپوزیشن کا مقصد پورا ہوگیاہے ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے عید کے بعد کوئی تحریک چلتی نظر نہیں آرہی البتہ حکومت اس تحریک کوچلاتی نظر آرہی ہے ۔مظہر عباس نے کہا کہ اگر جاوید چودھری اپنی بات پر کھڑے ہیں تو پھر چیئر مین نیب پر ایک سنجیدہ سوال آجاتاہے ، اگر یہ باتیں جو جاوید چودھری نے لکھی ہیں درست ہیں تو پھر چیئر مین نیب کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے ، چیئر مین نیب کو یہ وضاحت کرنا بہت ضروری تھا کہ ان کی جانب سے یہ باتیں کی گئی تھیں یا نہیں کی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جب کسی کالم نویس کو انٹرویو دیا جاتا ہے تو وہ آف دی ریکارڈ نہیں ہوتا، وہ انٹرویو چھپتا ہے، اس لئے پریس کانفرنس میں چیئر مین نیب کو اس انٹرویو کی وضاحت کرنی چاہئے تھی ۔ پروگرام میں شریک آئینی ماہر بابر ستار نے کہا کہ جب مخالف ٹیم میں میدان میں کھیلنے کیلئے آجائے پریشانی تو ہوتی ہے لیکن حکومت کو گرانے کے حالات نہیں ہیں کہ حکومت کو گرادیا جائے، لوگ پریشان ضرورہیں مہنگائی کے حوالے سے، حکومت اگرحالات کو کنٹرول نہ کرسکی تو پھر تحریک چل سکتی ہے، اب حکومت اگر پریشان ہے تو اپنی کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے، اگر حکومت معالات چلانا سکی تو پھر اس کے خلاف تحریک چل سکتی ہے لیکن ابھی الیکشن کے ایک سال بعد ہی حکومت مخالف تحریک چلنے کے امکانات نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ چیئر مین نیب نے اگر ایک صحافی کو انٹرویو دیا ہے تو یہ بات کیسے کہہ رہے ہیں کہ وہ جلدی جیل میں ہونگے، ان کی اپنی شہرت ایک نوکری پیشہ جج والی ہے جب یہ جج تھے اور جب ججوں کی تحریک چلی تو پھر بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال نے حکومت کی نوکری کی تو ایک نوکری پیشہ کیسے کسی کو این آر او دے سکتا ہے ۔