counter easy hit

شہباز شریف …… بارہواں کھلاڑی؟

Shahbaz Sharif ...... The twelfth player?میری خواہش ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب، اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو پاکستان واپس آنا چاہئے۔انہیں اس صف میں شامل نہیں ہونا چاہئے جس میں پرویز مشرف، اسحاق ڈار اور حسن نواز و حسین نواز شامل ہیں۔ میری اس خواہش کی وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف ایک معتدل مزاج کے سیاست دان ہیں اور پاکستانی سیاست میں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ابھی تک مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ شہباز شریف بجٹ سیشن سے پہلے واپس آ جائیں گے،مگر اب احتساب عدالت میں اُن کے لئے دو ہفتے کا استثنا مانگا گیا ہے اور اُس میں بھی اُن کے طبی معائنے کو واپس آنے سے مشروط کر دیا گیا ہے،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ فی الوقت واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ جوں جوں وقت گزرے گا،یہ تاثر گہرا ہوتا جائے گا کہ شہباز شریف بھی احتساب سے بچنے کے لئے ملک واپس نہیں آ رہے۔ یہ تاثر ایک بڑے لیڈر کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں۔

ویسے تو پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی معجزے رونما ہوتے ہیں،کئی انہونیاں ہو جاتی ہیں، اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مثلاً اب چیئرمین نیب کی مبینہ آڈیو وڈیو نے ہلچل مچا رکھی ہے۔اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے کا مطالبہ ہو رہا ہے، حتیٰ کہ اپوزیشن اس سکینڈل میں وزیراعظم ہاؤس کا ہاتھ تلاش کر رہی ہے، لیکن کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چیئرمین نیب کے آنے جانے سے احتساب کا عمل رک جائے گا، یا وہ کیسز ختم ہو جائیں گے جو اِس وقت موجود ہیں؟ اب اس بارے میں کیا بحث ہو سکتی ہے کہ حکومت خود چیئرمین نیب کو ہٹا کر یہ چارج ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کو دینا چاہتی ہے، جو تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ حکومتی وزراء پر بنے ہوئے احتساب کیس یا انکوائریاں ختم کرائی جا سکیں اور اپوزیشن کے رہنماؤں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں،لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس قسم کی باتوں یا تبدیلیوں سے پاکستان میں احتساب رک سکے گا،کیونکہ حکومت کی طرف سے بالکل واضح کیا جا چکا ہے کہ احتساب کا عمل کسی صورت میں نہیں رکے گا اور کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔ سو اس آس پر اگر بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہمارے رہنما انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ بدل جائے،تو قدم رنجہ فرمائیں، تو یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔ شہباز شریف سائیڈ لائن نہیں، بلکہ مرکزی دھارے کے رہنما ہیں، اسحاق ڈار کا چلے جانا اور بیماری کے بہانے واپس نہ آنا، اپنی جگہ اہم ضرور ہے، لیکن وہ شہباز شریف جتنے کلیدی اہمیت کے رہنما نہیں۔ شہباز شریف کی ملک سے عدم موجودگی ایک خلا کو ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر قومی اسمبلی میں اُن کا نہ ہونا صرف یہی نہیں کہ اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی کا احساس دِلاتا ہے،بلکہ مسلم لیگ(ن) کے اس بیانیہ کو بھی کمزور کرتا ہے کہ ہم احتساب سے ڈرنے یا بھاگنے والے نہیں۔

چند روز پہلے جب مریم نواز نے یہ کہا کہ ہم بھاگنے والے نہیں، بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہیں تو حکومتی وزراء نے شہباز شریف، اسحاق ڈار کا نام لے کر یہی کہا کہ اسے بھاگنا نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں؟مَیں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کے حوالے سے یہ دلیل بھی ماند پڑ جاتی ہے کہ وہ لندن سے پاکستان آئے، حالانکہ انہیں سزا بھی ہو چکی تھی، اس لئے انہیں جھکایا نہیں جا سکتا۔ چونکہ وہ مسلسل بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب بھی انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کی اپیل دائر کر رکھی ہے، اس لئے یہ تاثر قائم نہیں ہو رہا کہ وہ ڈٹ کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس تاثر کو جو چیز مزید کمزور کرتی ہے، وہ شریف خاندان کے باقی افراد، خصوصاً شہباز شریف کا ملک چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ حکومت کے وزراء اور مشیران جب ان کے لئے بھگوڑے کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے۔کچھ حلقوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ شہباز شریف احتساب سے نہیں ڈرتے،بلکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مزاحمت بڑھ گئی ہے اور جارحانہ انداز آ گیا ہے۔ مریم نواز اور دیگر مسلم لیگی رہنما حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، حتیٰ کہ نیب کے معاملے پر بھی صورتِ حال میں خاصی جارحیت محسوس ہو رہی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نوازشریف بھی، جو خاصے خاموش تھے، اب فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور انہوں نے حکم جاری کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو نچلی سطح تک منظم کر کے تحریک کے لئے تیار کیا جائے۔ یہ سب کچھ شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کے بعد ہوا ہے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف چودھری نثار علی خاں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ انہیں مسلم لیگ (ن) کا اب بھی حصہ سمجھتے ہیں، لیکن جمعرات کو پارٹی لیڈروں سے اپنی حالیہ ملاقات میں نواز شریف نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ جو مشکل حالات میں پارٹی چھوڑ کر چلے گئے،انہیں کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا۔ پھر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اب مسلم لیگ (ن) کا ایک ہی بیانیہ ہے اور وہ بیانیہ وہی ہے جو نوازشریف کا ہے، بلکہ نواز شریف کے حوالے سے یہ تک کہا گیا کہ اب ووٹ کو عزت دو سپر بیانیہ ہے اور اس کے بغیر کوئی بیانیہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ سو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو شہباز شریف کے مزاج، بیانیہ اور سوچ کے خلاف ہیں۔ اب ان کے لئے دو ہی راستے ہیں کہ واپس آکر مسلم لیگ (ن) کے اس بیانیہ کا حصہ بن جائیں یا پھر لاتعلق ہو کر لندن میں بیٹھے رہیں۔ یہ ان کے لئے مشکل صورت حال ہے، تاہم اگر انہوں نے اپنا علیحدہ سیاسی تشخص برقرار رکھنا ہے تو انہیں واپسی کا فیصلہ ہی کرنا ہو گا اور واپس آ کر بھی وہی بیانیہ اپنانا ہو گا،جو اس وقت مسلم لیگ (ن) میں ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے، اور عید کے بعد نجانے کیا شکل اختیار کرتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جب تک شہباز شریف پاکستان میں تھے، مسلم لیگ (ن) کی کوئی تنظیم نو نہیں کی گئی تھی۔ ان کے جاتے ہی نواز شریف نے 13 نائب صدر بنائے اور مریم نواز کو بھی نائب صدر بنا دیا۔ نائب صدر بنتے ہی مریم نواز نے اپنی خاموشی توڑ دی اور حکومت پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے، اب عملاً پارٹی کی کمان مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسے میں شہباز شریف اگر واپس آتے ہیں تو پارٹی کے معاملات کون چلائے گا؟ کیا شہباز شریف بطور صدر مسلم لیگ (ن) کو اپنے مزاج اور بیانیہ کے مطابق چلا سکیں گے یا کمزور سی آواز بن کر رہ جائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عید کے بعد اپوزیشن جو احتجاجی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے، اس میں مسلم لیگ (ن) کا کردار بہت اہم ہوگا۔ کیا شہباز شریف اس کردار کو اپنا سکتے ہیں، کیا جس قسم کی تقریریں اور باتیں اس تحریک میں متوقع ہیں، وہ ان کے متوازن اندازِ سیاست سے جڑ سکیں گی۔ مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی تو وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر پس پردہ قوتوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں، کیا شہباز شریف اس کی حمایت کریں گے؟ ظاہر ہے ان کی ماضی میں سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا آسان نہیں کہ وہ اس طرز سیاست کو اپنائیں گے۔ وہ ماضی میں آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی جوشیلی تقریریں تو کرتے رہے ہیں، مگر وہ کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے جس میں فوج، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو نشانہ بنایا جائے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں شہباز شریف غیر متعلقہ ہو گئے ہیں یا انہیں غیر متعلقہ کر دیا گیا ہے؟ کیا بالآخر نوازشریف اپنا بیانیہ منوانے میں کامیاب رہے ہیں اور ہمیشہ مشکلات سے بچانے کی کوشش کرنے والے شہباز شریف ناکام ہو گئے ہیں۔ ہاں بظاہر ایسا ہی ہے، تاہم شہباز شریف پاکستانی سیاست کے لئے غیر متعلقہ نہیں ہوئے۔ سیاست کو انتہائی سطح تک لے جانے کا نتیجہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، کوئی ایسا بھی ہو جو شاک آبزرور کا کردار ادا کرے۔ شہباز شریف میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں ان کا متحرک رہنا پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں ہے، لیکن لگتا نہیں، کیونکہ فی الحال انہیں آرام کا مشورہ دے کر بارہواں کھلاڑی بنا دیا گیا ہے۔