counter easy hit

نواز شریف کی جگہ شہباز شریف، سیاسی مخالفین ہضم کر پائینگے؟

متبادل قیادت میں دوڑ، شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان غیرا علانیہ معرکہ جھگڑے کو گھر میں نہ نمٹائے تومعاملات پارٹی کنٹرول سے نکل جائیں گے۔

وزیراعلیٰ شہباز شریف مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کیلئے ناگزیر کیوں؟ ایسا کون اور کیوں چاہتا ہے اور ایسی کسی صورت میں کیا ملکی سیاست سے سابق وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا۔ نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کا حکومتی کردار سیاسی مخالفین ہضم کر پائیں گے۔ قیادت کی تبدیلی کا یہ عمل آنے والے حالات کو عام انتخابات تک پہنچ پائے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو قومی سیاست میں اعلیٰ سطح کے حکومتی و سیاسی اور پارلیمانی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟، سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے بعد کیا انہیں قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق باقی نہیں رہا جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے وقت عام تاثر یہ تھا کہ عدالت کے ذریعے ان کی نااہلی سے ان کی سیاست اور مقبولیت متاثر ہوگی اور مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جھولی میں آ گرے گی اور شروع میں ہوا بھی یہی کہ عدالتی نا اہلی کے فوری بعد خود سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم ہاؤس میں جمع ہونے والے پارٹی ذمہ داران، سیاسی قائدین اور ارکان اسمبلی کے سامنے اعلان بھی کر دیا کہ متبادل وزیراعظم شہباز شریف ہی ہوں گے لیکن بوجوہ یہ عمل پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور وزارت عظمیٰ شاہد خاقان عباسی کے حصہ میں آئی۔

بعدازاں شہباز شریف ن لیگ کے باقاعدہ صدر بھی نہ بن سکے اور نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے، یہ وہ عمل تھا جس نے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور واضح پیغام دیا کہ جب تک نواز شریف پاکستان کے سیاسی افق پر موجود ہیں اس پارٹی کی قیادت وہ خود کریں گے اور ان کی غیر موجودگی میں متبادل کے طور پر حالات نے ایک دوسری قیادت مریم نواز کی صورت میں لا کھڑی کی ہے، جہاں تک مسلم لیگ ن کے اندر اس وقت اچانک قیادت کی تبدیلی کی تحریک کا سوال ہے تو اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ ن کے اندر ملک میں جاری سسٹم اور آنے والے انتخابات کے حوالے سے پیدا شدہ خوف ہے۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت نواز شریف کو لیڈر سمجھنے کے باوجود مشکل وقت میں شہباز شریف کی طرف اس لئے دیکھ رہی ہے کہ خود شہباز شریف اور ان کے دوست چودھری نثار علی خان کا اسٹیبلشمنٹ سے معاملات کا ایک وسیع اور کامیاب تجربہ ہے۔ شہباز شریف کی سیاست اور روابط نے نواز شریف کے سخت گیر موقف رکھنے کے باوجود انہیں کبھی سیاسی میدان سے دور نہیں ہونے دیا۔پارٹی کے سنجیدہ حلقے آنے والے کچھ خطرات خصوصاً نواز شریف کے عدالتی ٹرائل’ ملک میں جاری سیاسی عمل کے مستقبل اور آئندہ الیکشن کے بارے میں شکوک و شبہات کو ذہن میں رکھ کر اپنی قیادت کو اشارہ دے رہے ہیں کہ وقت سے پہلے آنے والے خطرات کے پیش نظر سخت اور مناسب فیصلے پہلے کیے جائیں۔ ان عناصر کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا تھا جب نواز شریف نے اپنی نااہلی کے وقت شہباز شریف کا ہاتھ پارٹی قیادت کے سامنے بلند کرتے ہوئے انہیں اپنا جانشیں اورآئندہ وزیراعظم مقرر کرنے کی بات کی تھی۔ اندرون خانہ چلنے والے کچھ معاملات کی وجہ سے انہیں اس ممکنہ جانشینی کے عمل سے دور کر دیا گیا اور پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقوں نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی غیر موجودگی میں متبادل قیادت کے طور پر میاں نواز شریف کے بجائے ان کی صاحبزادی مریم نواز کو غیر محسوس انداز میں آگے بڑھایا گیا۔

پارٹی کے سنجیدہ حلقے سوچتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان میاں نواز شریف کے لب و لہجہ سے جو ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے اس میں اگر ریلیف حاصل کرنا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے والی مریم نواز کے بجائے تجربہ کار اور بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو آزمایا جائے ۔ یہی وہ واحد شخص ہیں جو نواز شریف کیلئے بحرانی کیفیت میں ریلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔ شہباز شریف پارٹی کے لیڈر بھی ہو جائیں تو پارٹی سے نواز شریف کا کردار ختم نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ دراصل مسلم لیگ این ہے اور خود نواز شریف کو یہ حقیقت سمجھنی چاہئے کہ ا سٹیبلشمنٹ اور طاقتور حلقوں میں ان کے بھائی شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان اثرات رکھتے ہیں اور عوام میں نواز شریف کا سکہ چلتا ہے ۔ لہٰذا ارکان اسمبلی کو بھی چاہئے کہ میڈیا اور عوامی فورم پر بات کرنے کے بجائے گھر کے جھگڑے کو گھر میں نمٹانے کی کوشش کریں ور نہ معاملات پارٹی کے کنٹرول سے نکل کران قوتوں کے ہاتھ آ جائیں گے جنہوں نے آئندہ الیکشن کے انعقاد پر افواہوں کی گرد اڑا رکھی ہے اور پھر نہ شریف خاندان کے ہاتھ کچھ لگے گا اور نہ ہی مسلم لیگ ن حکمران جماعت بن سکے گی۔ اگر اس ساری بحث کو سمیٹا جائے تو حاصل یہی ہے کہ ن لیگ کے اندر نواز شریف کی قیادت تو مسلمہ ہے مگر اصل دوڑ متبادل قیادت کی ہے جس کیلئے شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان غیراعلانیہ معرکہ برپا ہے۔