counter easy hit

سینیٹ انتخابات 2018: پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب،

.اسلام آباد ( رپورٹ ؛ اصغر علی مبارک سے )… پاکستان میں ایوان بالا سینیٹ آف پاکستان کیلئے ھونےوالے انتخابات براۓ سال 2018:کیلئے پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار بھاری اکثریت میں کامیاب ہوگے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا.ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 12 نشستوں کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 11 نشستیں جیت لی ہیں اور آخری نشست پر پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کامیاب ہوگئے ہیں۔جو یاد رہے کہ قبل ازیں چوہدری سرور کا تعلق پہلے مسلم لیگ ن سے تھا اور وہ پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔پنجاب اسمبلی سے سینیٹ آف پاکستان کیلئے ھونےوالے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں کامران مائیکل، آصف کرمانی، رانا مقبول، اسحاق ڈار، حافظ عبد الکریم، مصدق ملک، سعدیہ عباسی، خالد شاہین بٹ، ہارون اختر، زبیر گل، نزہت صادق شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں 368 اراکین نے ووٹ ڈالے اور یہ 100 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ ہے۔سندھ اسمبلی سے آنے والے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی گیارہ سیٹیں جیت چکی ہیں اور ایک سیٹ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے جیتی ہے۔کامیاب ہونے والے اراکین میں پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو، رضا ربانی، مصطفی نواز کھوکھر، محمد علی شاہ جاموٹ، امام دین شوقین، کرشنا کماری، انور لعل دین، سنجے پروانی، اور ڈاکٹر موہن منجانی شامل ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ بھی کامیاب رہے۔ان انتخابات میں بلوچستان اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن، دونوں کی ہی توجہ کا مرکز رہی ہے کیونکہ وہاں پر مسلم لیگ ن میں بغاوت کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔صوبہ بلوچستان سے سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 6 پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔بلوچستان سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر چار آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں انوارالحق کاکڑ، کہدہ بابر، صادق سنجرانی اور احمد خان شامل ہیں۔ تین جنرل نشستوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار شفیق ترین، جے یو آئی ایف کے مولوی فیض محمد اور نیشنل پارٹی کے اکرم بلوچ کو کامیابی ملی۔ خواتین کی دو نشستوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی عابدہ اور آزاد امیدوار ثنا جمالی نے کامیابی حاصل کی جبکہ ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نصیب اللہ کو کامیابی ملی۔خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اب تک ایک جنرل، ایک خواتین اور ایک ٹیکنو کریٹ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مولانا سمیع الحق اور انیسہ زیب کامیاب نہیں ہو سکے۔ پیپلز پارٹی سات اراکینِ صوبائی اسمبلی کے ساتھ خیبر پختونخوا میں خواتین کی ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔خیبر پختونخوا میں صوبے کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد قائم ہوئے تھے۔ ان میں تحریک انصاف اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی کے درمیان اتحاد تھا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد کیا تھا تو ادھر عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کی باتیں ہو رہی تھیں۔خیبر پختونخوا اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد تو ایک سو چوبیس ہے لیکن پی ٹی آئی کے ایک رکن بلدیو کمار نے اب تک حلف نہیں لیا جبکہ عبدامنعم کو نااہل قراد دیا جا چکا ہے۔پاکستان تحریک انصاف پنجاب سے تعلق رکھنے والےایف ایم ریڈیو پریزنٹر فیصل جاوید کو بھی خیبر پختونخوا اسمبلی سے کامیاب کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ٹیکنو کریٹس کی سیٹ پر پاکستان مسلم لیگ نواز کے دلاور خان اور جنرل سیٹ پر پیر صابر شاہ کامیاب ہوئے ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے طلحہ محمود بھی کامیاب ہوئے ہیں۔اسلام آباد کی دو سیٹوں میں سے جنرل سیٹ پر اسد علی خان جونیجو اور ٹیکنوکریٹ سیٹ پر مشاہد حسین سید کامیاب ہوگئے ۔ فاٹا کی چار نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدوار ہدایت اللہ، شمیم آفریدی، ہلال الرحمان اور مرزا محمد آفریدی ہیں۔ فاٹا سے 11 اراکین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا تاہم ان میں سے 7 اراکین نے ووٹ ڈالے۔ تین اراکین نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تحفظات کے پیشِ نظر ووٹ نہیں ڈالے۔پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ان انتخابات میں اپنے ووٹ نہیں ڈالے۔سینیٹ کی مجموعی 104 نشستوں میں سے 52 اراکین کی مدت مارچ میں مکمل ہو گئی تھی۔ سینٹ کی 52 نشستوں کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، چاروں صوبوں اور فاٹا سے مجموعی طور پر 133 امیدوار میدان میں تھے۔انتخابات میں چاروں صوبوں سے 46 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو اور فاٹا سے چار سینیٹرز منتخب ہو رہے ہیں۔اس دفعہ سینیٹ کے الیکشن اس لیے بھی بہت اہم ہیں کہ ان انتخابات کے بعد اس ایوان میں پارٹی پوزیشن یکسر بدل جائے گی۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو پارٹی کی صدرارت کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا جس کے بعد مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار ہے کیونکہ اب اس کے امیدوار پارٹی کے بجائے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑے ہیں۔ قومی اسبملی میں اکثریت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ن سینیٹ میں بھی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آی ،سینیٹ کے 52 نئے اراکین کو منتخب کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نےووٹ دے ہیں۔ ان سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ شروع ہو ئی ۔ پولنگ کا عمل شام چار بجے تک جاری رہا۔سینیٹ میں پنجاب کی 12 نشستوں میں سے سات جنرل نشستیں، دو خواتین کی مخصوص نشستیں، دو ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتتی نشست پر انتخاب ہوا ہے۔ پنجاب سے ان 12 نشستوں پر الیکشن کے لیے 20 امیدوار سامنے آے تھے ۔سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں پر انتخابات میں 33 امیدوار جبکہ خیر پختوانخوا سے 11 نشستوں پر 26 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا ۔بلوچستان سے سینیٹ کی 11 نسشتوں کے لیے 25 امیدوار جبکہ فاٹا کی چار نشستوں پر 24 امیدوار، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی دو نشستوں پر الیکشن ہو ا ۔اس بار پاکستان پیپلز پارٹی نے تھر کی ہندو متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس سماجی کارکن کرشنا کماری سینیٹ کا ٹکٹ دیا جس پر وہ کامیاب رہیں سینیٹ کے ان اتخابات کے بعد پاکستانی سیاست کے بعض بڑے نام پارلیمانی سیاست سے باہر ہو ے اور بہت سے نئے چہرے بھی سینیٹ میں سامنے آئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر ترین رہنما اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، تاج حیدر، عوامی نشینل پارٹی سندھ کے رہنما شاہی سید اور الیاس بلور بھی سینیٹ کے رکن نہیں رھے۔دوسری جانب ن لیگ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جس پر وہ کامیاب رہی ھیں ،2018ء کے سینیٹ انتخابات کے لیے چاروں صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد سے 135 امیدوار میدان میں تھے ۔پنجاب سے 20 امیدوار جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں تھے ۔سندھ سے مجموعی طور پر 33 امیدوار الیکشن میں تھے ۔ جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدوار مقابلہ کررھے تھے خیبر پختونخوا سے کُل 27 امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔ جنرل نشستوں پر 14، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 اور خواتین کی نشستوں پر 8 امیدواروں میں مقابلہ تھے ۔بلوچستان سے 25 امیدوار سینیٹ الیکشن میں حصہ لے رہے تھے جس میں ۔ جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدوار تھے ۔ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے 20، ایم کیو ایم پاکستان کے 14، تحریک انصاف کے 13 پاک سرزمین پارٹی کے 4 جبکہ 65 آزاد امیدوار جن میں مسلم لیگ (ن) کے وہ 23 امیدوار بھی شامل تھے،چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کی کُل نشستیں 371 جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 367 تھی ۔ سینیٹ انتخابات کے وضح کردہ فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 53 ووٹ لینے تھے ۔پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 309، تحریک انصاف کے 30، پیپلز پارٹی کے 8، مسلم لیگ ق کے 8، آزاد ارکان 5، مسلم لیگ ضیاء کے 3 ارکان جبکہ پاکستان نیشنل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل تھا ۔سندھ اسمبلی کی کُل نشستیں 168 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 167 ۔ فارمولے کے تحت سندھ اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 24 ووٹ لینے تھے ،سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 95، ایم کیوایم کے 50، مسلم لیگ فنکشنل کے 9، مسلم لیگ (ن) کے 7، تحریک انصاف کے 4 ارکان ، جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کا ایک اور ایک آزاد رکن اسمبلی تھے ۔خیبر پختونخوا اسمبلی کی کُل نشستیں 124 جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 123 تھی ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 18 ووٹ حاصل کرنے تھے خیبر پختوںخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے 61، (ن) لیگ کے 16، جمعیت علمائے اسلام کے 16، قومی وطن پارٹی کے 10، جماعت اسلامی کے 7، پیپلز پارٹی کے 6، عوامی نیشنل پارٹی کے 5 ارکان ہیں، جبکہ 2 آزاد رکن اسمبلی تھے بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستیں اور موجودہ ارکان کی تعداد 65 تھی ۔ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 9 ووٹ لینے تھے ۔بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، جمعیت علمائے اسلام کے 8، ق لیگ کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 2 جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، مجلس وحدت المسلمین، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی اور ایک آزاد رکن اسمبلی تھا ۔اس وقت 342 کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں 340 ارکان جس میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد 221 تھی ، جس میں مسلم لیگ (ن) کے 187، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 14، مسلم لیگ فنکشنل کے 5، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3، نیشنل پیپلز پارٹی کے 2، مسلم لیگ ضیاء اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل تھے ۔حزبِ اختلاف جماعتوں کے کُل ارکان کی تعداد 119 تھی ۔ جن میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 47، پاکستان تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4، مسلم لیگ قائد اعظم کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 ارکان جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ، قومی وطن پارٹی کا ایک ایک اور 3 آزاد رکن اسمبلی تھےواضح رہے کہ .ایوانِ بالا سینیٹ میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 26 نشستیں ہیں۔ ان کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہو چکے ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ میں 27 نشستیں ہیں۔ 9 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی امیدواروں کے لیے ایک ہی طرح کے کاغذات نامزدگی ترتیب دیے گئے ہیں۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے امیدواروں اور عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے علیحدہ علیحدہ کاغذات نامزدگی بنائے گئے تھے۔پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے 3 برسوں کی محنت کے بعد انتخابی اصلاحات کا ایکٹ تیار کیا۔ ماضی میں انتخابی ایکٹ کی روشنی میں الیکشن کمیشن انتخابی قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دیتا تھا جس میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سمیت مختلف انتخابی فارمز کا بنانا بھی شامل تھا۔پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابی ایکٹ کے بعد انتخابی قوانین اور انتخابی فارمز بھی پارلیمنٹ نے بنائے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد یہ انتخابی فارمز اور انتخابی قوانین پر مشتمل مذکورہ انتخابی صلاحات ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔پارلیمنٹ کی جانب سے نئے بنائے گئے کاغذات نامزدگی کا تجربہ پہلی مرتبہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں کیا جارہا ہے۔ ان کاغذات نامزدگی کو استعمال کرتے ہوئے 3 مارچ کو سینیٹ کے 52 نئے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا۔ملک میں جولائی 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں بھی یہی کاغذات نامزدگی استعمال کیے جائیں گے۔