بیجنگ: دنیا بھر میں کم جسامت پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا سمونے کی کاوشیں جاری ہیں اب چینی ماہرین نے اس ضمن میں ایک نیا میدان دریافت کیا ہے اور انہوں نے ہولو گرافک چپ پر ڈیٹا کی عظیم مقدار سمونے کا دعویٰ کیا ہے۔

چین کی نارتھ ایسٹ نارمل یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی نوعیت کی پہلی فلم بنائی ہے جس میں ہولو گرافک ٹیکنالوجی کے بعض مسائل حل کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ٹائٹانیئم ڈائی آکسائیڈ سے ایک سیمی کنڈیکٹر چپ بنائی ہے جس پر چاندی کے نینو ذرات شامل کیے گئے ہیں۔
ایک لیزر نینو ذرات پر ڈالی جاتی ہے جو ان کے چارج تبدیل کرکے ان پر ڈیٹا لکھتی ہے۔ لیزر کی مختلف طولِ امواج ( ویولینتھ) ہر ذرے پر الگ اثر ڈالتی ہے۔ اس طرح لکھا جانے والا ڈیٹا تھری ڈی ہولوگرام کی شکل میں بنتا ہے۔
اس طرح روایتی آپٹیکل سسٹم کے مقابلے میں مختصر جگہ پر ڈیٹا کی بڑی مقدار رکھی جاسکتی ہے۔ نارتھ ایسٹ نارمل یونیورسٹی کے ماہرین کا انداز ہے کہ اگر کوئی چِپ صرف چار مربع انچ چوڑی ہے تو اس پر 1000 ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا سما سکتا ہے جو 8.5 ٹیرا بائٹس کے برابر ہے۔
لیکن ہولو گرافک اسٹوریج والے آلات پر اگر الٹرا وائلٹ (بالائے بنفشی) شعاع کی تھوڑی سی مقدار بھی ڈال دی جائے تو اس سے سارا ڈیٹا ضائع ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہولو گرافک انداز میں ڈیٹا کو بہت عرصے تک محفوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس خامی کو دور کرنے کے لیے الیکٹران جذب کرنے والے مالیکیولز چپ پر رکھے گئے ہیں۔ اب جیسے ہی ان پر الٹرا وائلٹ شعاع ڈالی جاتی ہے یہ اسے اچک لیتے ہیں اور چپ کو متاثر نہیں ہونے دیتے۔
اس طرح بالائے بنفشی شعاعوں سے ڈیٹا محفوظ رہتا ہے اور تباہ نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ چپ بہت عرصے تک ڈیٹا سنبھال سکتی ہے۔ تجرباتی طور پر فلم پر ڈیٹا شامل کرکے اسے بار بار الٹرا وائلٹ روشنی سے گزارا گیا تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی ڈیٹا پڑھنے کی زبردست رفتار متاثر ہوئی۔
ماہرین کے مطابق اس چپ سے ایک جی بی ڈیٹا فی سیکنڈ پڑھا جاسکتا ہے اگلے مرحلے میں اس چپ کو بہتر بنا کر سردی اور گرمی کے علاوہ بیرونی ماحول میں آزمایا جائے گا۔








