counter easy hit

صف اول کے صحافی نے 7 نکات پیش کر دیے

لاہور (ویب ڈیسک) کتنی بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جس دانشور طبقے نے پارلیمانی نظام کو اپنی آنکھ کا تارا بنا رکھا ہے وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ نظام حزب اختلاف کے تعاون اور اشتراک کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ برطانیہ کی مثال لیجئے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں  نامور کالم نگار نسیم احمد باجوہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برطانوی وزیراعظم کی دعوت پر قائد حزب اختلاف (جیریمی کاربین) وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ (10 Downing Street ) گئے اور وہاں کئی گھنٹے رہے اور مفید مشورے دیئے اور تعمیری تنقید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ ادھر وطن عزیز میں منظر نامہ کیا ہے؟ قائد حزب اختلاف زیر تفتیش ہیں‘ غالباً ضمانت پر رہا ہیں اور سرکار سبز روشنی نہ دکھائے تو بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ ان کے بڑے بھائی اور اصل لیڈر (اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ) جیل میں رہ چکے ہیں‘ جنہیں آج کل طبی بنیادوں پر مختصر سی ضمانت پر رہائی ملی ہے۔ اب رہ گئی تیسری بڑی سیاسی جماعت تو میرے قارئین مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور جیل کے دروازہ میں کتنا تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے۔ہمارے ہاں جمہوریت کی گاڑی جن چار پہیوں پر چل سکتی ہے (نہ چل رہی ہے اور نہ چل سکتی ہے) مندرجہ بالا سطور میں ان تین کا ٹوٹ پھوٹ کا بری طرح شکار ہوجانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر داد دیجئے ہمارے دانشوروں کی بصیرت اور بصارت کی کہ وہ اب بھی پرُ امید ہیں کہ وہ مبارک دن آنے والا ہے جب پارلیمانی نظام کی بری طرح ناکام ہوجانے والی گاڑی کے چاروں پہیے کسی معجزے کی صورت اتنے کارآمد اور فعال بن جائیں گے کہ گاڑی نہ صرف رواں دواں ہو جائے گی بلکہ فراٹے بھرتی ہوئی عوامی فلاح و بہبود ( جو مملکت کا بنیادی مقصد اور واحد جواز ہے) کی منزل کی طرف اتنی تیزی اور خوش اسلوبی سے بڑھے گی کہ پارلیمانی جمہوریت کے مائی باپ انگریز بھی دنگ رہ جائیں گے۔ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے میرا فرض ہے کہ میں لگی لپٹی رکھے بغیر اس کالم میں وہ لکھ دوں جو میں دیانتداری سے سچ سمجھتا ہوں۔ کالم نگار کو نہ انعام چاہئے اور نہ ستائش اور نہ مذمت کی پرواہ ہے۔ آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف‘ دونوں صورتوں میں مجھے اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ مختصر ترین الفاظ میں حاصلِ کلام سات نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ 1:میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے چونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری‘ معاشی ابتری‘ افراطِ زر اور بنیادی ضرورتوں(تعلیم‘ علاج‘ امن اور انصاف) کے فقدان نے ایک سنگین بحران پیدا کر دیا ہے۔ 2: بجلی‘ گیس اور پٹرول کو مہنگا کرنے سے یہ معاشی بحران ہر گز حل نہ ہوگا بلکہ عوامی اضطراب کئی گنا بڑھ جائے گا۔ 3: جب تک ہم ایک روپیہ بھی قرض لینا اور خسارے کا بجٹ بنانابند نہیں کرتے ہم یومِ آزادی منانے کا مذاق کرنا فی الحال ملتوی اور معطل کر دیں۔ 4: ہم اربوں روپوں کی غیر ضروری درآمدات پر زر مبادلہ کا ایک ڈالر بھی خرچ نہ کریں۔ ہمیں چاہے کتنی ہی تنگی برداشت کرنی پڑے‘ مصنوعی اور جھوٹے معیارِ زندگی کو فی الفورترک کر دیں۔ 5: سرکاری اخراجات کو بھی نصف کر دیں۔ 6: اگلے دس سال کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے دیانت دار اور عوام دوست راہنمائوں پر مشتمل قومی حکومت کو اپنی قیادت سونپیں۔7: انگریز کے بنائے ہوئے چاروں صوبوں کو جلد از جلد ختم کر کے سارا اقتدار خود مختار ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دیں۔ یاد رکھیں کہ جب جہاز ڈوب رہا ہو تو اس کے عرشے پر کرسیوں کی ترتیب پر بحث کرنا خودکشی کے مترادف ہوتاہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website