counter easy hit

فرمزکاریونیوگزشتہ سال27 فیصد بڑھا، موبائل بینکاری ٹرانزیکشنز1492ارب روپے ہوگئیں بز

Revenue of firms increased 27% year, mobile banking transactions were Rs 1492 billion Biz

Revenue of firms increased 27% year, mobile banking transactions were Rs 1492 billion
Biz

کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹر ی کے قائمہ کمیٹی برائے بینکنگ کے چیئرمین مرزااختیار بیگ، کریڈٹ اور فنانس نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پانچ اہم ڈپارٹمنٹس کی کراچی سے لاہور منتقلی کے حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کے اس اعلان نے پاکستان کی کاروباری برادری خاص طور پر کراچی کی تاجر برادری میں بہت بے چینی اور تشویش پیدا کر دی ہے۔

حکومت کے اس اقدام سے بزنس کمیونٹی کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی جنہیں پہلے ہی مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا ہیڈ کوارٹر 1948 سے کراچی میں کام کر رہا ہے اور پاکستان کے دارالحکومت کو 1960کی دہائی میں جب کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا تو اس وقت بھی پالیسی سازوں اور حکومت نے اسٹیٹ بینک کی کراچی کی اہمیت اس کی تجارتی، صنعتی اور مالیاتی سرگرمیاں تھیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اسٹیٹ بینک کے ڈپارٹمنٹس جیسا کہ کرنسی مینجمنٹ، گورنمنٹ بینکنگ، انٹرنل آڈٹ، فارن ایکسچینج آپریشن اور  وہ محکمے ہیں جنہیں لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ حکومت کا دانشمندانہ فیصلہ کاروبار  دوست پالیسیز کی جانب نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ جیسا کہ مرکزی بینک کے ذیلی دفاتر اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے ہیں تو ان ڈپارٹمنٹس کو لاہور منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ایسا کرنا کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے بہتر نہیں ہے کیو نکہ کراچی جو کہ اس وقت معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اور پاکستان کی قومی پیداوار میں20فیصد سے زائد کا حصہ دار ہے جبکہ صنعتی پیداوار میں یہ 30فیصد اور  بڑے پیمانے کی صنعتوں میں یہ 40 فیصداور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں30فیصد اور انکم ٹیکس کی وصولیوں میں 62فیصد پاکستان کی تجارت میں 95فیصد کا حصہ رکھتا ہے جبکہ مالیاتی سطح پر کراچی میں40فیصد فنانشل سرگرمیوں میں 50فیصد بینکوں کے ڈپازٹس میں حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ زیادہ تر سرکاری اور نجی بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز، انزو رنس کمپنیز، میڈیا اور مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کے ہیڈ کوارٹرز بھی کراچی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف انڈسٹریل زونز، دو بندرگاہیں اور کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی کراچی میٹرو شہر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ماضی میں ورلڈ بینک نے کراچی سے پاکستان کا سب سے زیادہ کاروبار دوست شہر تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی بینک کے ڈپارٹمنٹس کی منتقلی سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متاثر ہو رہا ہے جو کہ پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے فیڈرل گورنمنٹ پر زور دیا کہ وہ کراچی کی کاروباری اور صنعتی کمیونٹی کے ساتھ زیادتیاں ختم کرے اور کاروبار مخالف اقدامات کو روکے جو کہ یقینی طور پر پاکستان معیشت کے لیے نقصاندہ ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کی مختلف ٹریڈ ایسوسی ایشنز اور چیمبرز پہلے ہی اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر تنقید کر چکے ہیں اور اس فیصلے کی واپسی کی درخواست کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی حالیہ گفتگو جو کہ اسٹیٹ بینک کے بینکنگ سروسز کے منیجنگ ڈائریکٹر قاسم نواز سے متعلق تھی بتایا جس میں انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک منتقلی کے فیصلے پر شدید تنقید اور اسٹیٹ بینک کے کراچی سے کچھ دفاتر کی منتقلی پر ملازمین کی فلٹرنگ کا اظہار کیا۔

اس موقع پر قاسم نواز نے بتایا کہ ان ڈپارٹمنٹس کو لاہور منتقل کرنے سے اسٹیٹ بینک کےکسی ملازم کو ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ اسٹیٹ بینک کے ملازمین کو کراچی میں اپنی خدمات جاری رکھنے یا لاہور منتقل ہونے کا آپشن دیا ہے۔ قاسم نواز نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے دفاتر منتقل کرنے کا مقصد کراچی سے مذکورہ ڈپارٹمنٹس ختم کرنا نہیں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں ان ڈپارٹمنٹس کے آپریشنز کو توسیع دیناہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے اس انتہائی اہم اور نازک معاملے پر گورنر اسٹیٹ بینک کو بزنس لیڈرز کے ساتھ فیڈریشن ہاؤس میں ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے درخواست کی ہے کہ ڈپارٹمنٹس کے منتقلی کے فیصلے کو فیالفور موخر کیا جائے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website