counter easy hit

مہاجرین ایک ہزار یورو لیں اور اپنے وطن واپس جائیں

جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ جن مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہوچکی ہے ان کو رضاکارانہ طور پر وطن واپسی سے قبل نقد رقم دی جائے گی۔

یہ بات انہوں نے جرمن اخبار ’بلڈ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔ ان کا کہنا تھا ’اگلے تین ماہ میں واپس جانے والے مہاجرین کو انفرادی طور پر ایک ہزار یورو جبکہ ان کے خاندان کے لیے تین ہزار یورو تک امدادی رقم ادا کی جائے گی۔‘

گزشتہ چند سالوں سے جرمن حکومت اپنی مرضی کے تحت واپس جانے والے تارکین وطن کو مخصوص رقم ادا کرتی رہی ہے۔ اس ادائیگی سے پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جانے کا حوصلہ ملنے کے علاوہ وہاں ابتدائی ایام میں گزارہ کرسکتے ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزیر داخلہ نے مہاجرین سے براہ راست اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر آپ اگلے سال فروری تک رضاکارانہ طور پروطن واپس جائیں گے تو ایک سال تک گھر کے اخراجات کے لیے مالی امداد بھی دی جائے گا۔‘

’اب، اپنا وطن، اپنا مستقبل‘
جرمن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق مسترد شدہ پناہ گزین کو ابتدائی رقم کے ساتھ اپنے وطن میں گھر کا کرایہ، گھرکی تعمیر نو اور بنیادی اخراجات کے ساتھ باورچی خانے یا غسل خانے کا سامان خریدنے کے لیے بھی معالی مدد دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جرمن حکومت کی جانب سے متعارف کردہ اس نئی اسکیم کا نام ’’ اب، اپنا وطن، اپنا مستقبل‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

بعد ازاں تھوماس ڈی مزائر کا پناہ گزین سے مخاطب ہوکر کہنا تھا کہ ’’آپ کے ملک میں مواقع موجود ہیں۔ ہم آپ کو اپنے ملک میں دوبارہ ضم ہونے کے لیے تعاون فراہم کریں گے۔‘‘

وزیر داخلہ کی طرف سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب جرمن ریاست باویریا کو افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

واضح رہے دیگر جرمن ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ تر افغان مہاجرین کو باویریا سے واپس بھیجا گیا ہے۔ قبل ازاں باویریا کی وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ، ’’افغان مہاجرین ملک بدری کی اطلاع ملتے ہی لاپتہ ہوجاتے ہیں۔‘‘

اس وزارت کے مطابق ملک بدر کیے جانے والے زیادہ تر مہاجرین کی فہرست میں مبینہ جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔

جرمنی میں باویریا اور سیکسنی کی ریاستیں افغان مہاجرين کی طرز پر جرائم پیشہ شامی مہاجرین کو بھی جرمنی سے ملک بدری چاہتے ہیں۔

اسی حوالے سے آئندہ ہفتے لائپزگ میں شروع ہونے والی صوبائی وزرائے داخلہ کی ایک کانفرنس میں اس تجویز پر فوکس کیا جا رہا ہے۔