counter easy hit

پولیس کا کام رینجرز کو نہ دیا جائے

ایک بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے مجمع کو دوسری جگہ منتقل کرنا یا ہٹانا رینجرز کا نہیں پولیس کا کام ہے اور پولیس ہی کو کرنا چاہیے۔

اسلام آباد میں دھرنے سے نمٹنے کیلئے تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ مجمع کو دوسری جگہ منتقل کرنا یا ہٹانا رینجرز کا نہیں پولیس کا کام ہے اور پولیس ہی کو کرنا چاہیے ۔رینجرز اور فوج کی تربیت زیادہ جارحانہ ہوتی ہے ،جس سے نقصان کا زیادہ امکان ہوتاہے ،جیسے اگر ان کو آپریشن مکمل کرنے کیلئے ایک گھنٹہ ملا ہے تو انہوں نے اسے ایک گھنٹے میں ہی مکمل کرنا ہے جو ایسے معاملات میں غیر مناسب ہے ،دوسری طرف پولیس میں انسداد فسادات فورس ہوتی ہے ،جن کی مظاہروں سے ڈیل کرنے کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے ،پولیس کے پاس مختلف قسم کے حربے ہوتے ہیں گھڑ سوار پولیس ہوتی ہے ،واٹر کینن ہوتی ہے ،مظاہرین کی تعداد سے زیادہ پولیس کی نفری استعمال کریں ،یا پھر ان کو وہاں سے ہٹا کر ایسی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں وہ راستہ بلا ک نہ کر سکیں،پھر ان کو اٹھا کر جیل میں ڈالیں،یہ سارے حربے پولیس کو پتہ ہیں اور ان کی تربیت ہوتی ہے ۔احتجاج کی صورت میں پہلے مذاکرات کئے جاتے ہیں،تاکہ مظاہرین کو راستے بند کرنے سے روکا جا سکے کیونکہ اگر آپ ان کو آسانی سے راستے بند کرنے دیتے ہیں تو پھر ان کی تعداد میں اضافہ ہو تا جاتاہے ، یہاں ایسا ہی ہوا ،انہوں نے آسانی سے مظاہرین کو یہ سب کرنے دیا اور وہ براجمان ہو گئے۔

اگر احتجاجوں کو ڈیل کرنے کیلئے بنائے گئے لائحہ عمل کے مطابق چلا جائے تو پھر اس قسم کے احتجاج کیلئے ٹریفک روکنے کی اجازت نہیں دی جاتی ،اگر دھرنا دینا ہو تو انہیں بتا دیا جاتاہے کہ آپ نے فلاں جگہ جانا ہے ،اگر آپ سڑک بلا ک کریں گے تو ہم لاٹھی چارج کرینگے ، ایسی صورتحال میں پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جانی نقصان نہ ہو اور اس کیلئے مہارت کا ہونا ضروری ہے ،اب پولیس میں وہ مہارت نظر نہیں آتی ،کیونکہ ہو یہ رہا ہے کہ دو ہزار بندہ اکٹھا ہو جاتاہے ،دوسری طرف پولیس والوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا کرنا ہے ،کیونکہ ان کی پریکٹس نہیں ہوتی ،تربیت نہیں ہوتی ،رابطہ نہیں ہوتا۔جب سے ہماری ضلعی انتظامیہ کا کلچر اورڈپٹی کمشنر کا کردار ختم ہوا ہے ،وزرائے اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے براہ راست یہ کردار اپنا لیا ہے ۔جیسے ایک دفعہ جب ایک آدمی نے اسلام آباد کو یرغمال بنا لیا تھا ،انتظامیہ کو بلاک کردیا تھا تو وہاں وزیر داخلہ خود اس معاملے کو ڈیل کرتے ہوئے نظر آئے ،یہ ان کا کام نہیں تھا ،ان کا کام پالیسی بنانا ہے ،ان کی طرف سے اشارہ ہو نا چاہیے کہ یہ کرنا ہے اور عملے کو اتھارٹی دینا ہوتی ہے کہ آپ کس حد تک جا سکتے ہیں،یعنی نقصان کم سے کم ہو یا اگر نقصان نہیں کرنا تو پھر ایسے ہی چلنے دیں اور ان کو مزید تھکائیں وغیرہ اور اگر آپ خود تھک گئے ہیں اور کارروائی کرنی ہے تو یہ فیصلہ وزیر نے کرناہے اور اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے ،یہ ڈپٹی کمشنر طے کرے گا۔

وزیر اعلیٰ یا وزیر کو چاہیے کہ وہ متعلقہ افسر کو کام کرنے دیں اور اگر چھوٹی موٹی غلطی ہو جائے تو پھر اس کا دفاع بھی کریں ،اگر اس نے کوئی بھیانک قسم کی غلطی کی یانااہلی کا مظاہر ہ کیا ہے تو پھر اس کی سرزنش کریں،اس کو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے ،پھر جنہوں نے فیصلے کرنے ہیں، وہ بہتر فیصلے کریں گے۔