counter easy hit

ریڈیو پاکستان سے ملازمین کی جبری بیدخلی سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متاثر ہونے کا امکان

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ )ریڈیو پاکستان کو پاکستان کی موثر آواز ہونے کا اعزازحاصل ہے قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا پاکستان کے قیام کا اعلان بھی ریڈیو سے ہوا ازلی دشمن بھارت نے جب جنگ 1965پاکستان پر مسلط کی تو پاکستانی قوم کے جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے میں ریڈیو پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں جب کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا 520روز ہو چکا ہے دنیا بھر میں ریڈیو پاکستان کشمیریوں کی موثر آواز بن کر سامنے آیا ہے گزشتہ ایک سال کے دوران جبکہ مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں ریڈیو پاکستان ہی واحد زریعہ ھے جس حقائق کو سامنے لایا جا رہا اس حقیقت سے انکار نہیں کہ
ریڈیو پاکستان اور مملکت خداداد پاکستان دونوں جڑواں بھائیوں کی طرح ایک ہی لمحے یعنی 14 اور 15-اگست 1947 کی درمیانی شب معرض وجود میں آئے- بلکہ ایک بھائی (ریڈیو پاکستان) کو دوسرے بھائی یعنی پاکستان کی دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے کے اعلان کا شرف بھی حاصل ہوا – یہ ایسا اعزاز ہے کہ کوئی لاکھ چاہے، کبھی بھی ریڈیو پاکستان سے چھین نہیں سکتا –
وقت کا سفر جاری رہا، ریڈیو پاکستان نے ملک کی معاشی، معاشرتی، تمدنی، تہذیبی، فنونی و ادبی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا- حالت امن ہو یا جنگ کے بادل منڈ لارہے ہوں، ترقی کا سفر ہو یا قدرتی آفات، سیلابوں اور زلزلوں کی تباہ کاریوں کے اندوہناک مناظر، ریڈیو پاکستان نے ایسے مواقع پر ہمیشہ قومی یکجہتی، اتحادویگانگت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا-
علاوہ ازیں پوری دنیا میں ریڈیو کی مسلمہ اہمیت وافادیت کے پیش نظر ریڈیو پاکستان کو ہمیشہ ریاستی و سرکاری کنٹرول میں رکھا گیا- نہ صرف یہ کہ اس ادارے نے عوام کی آواز بن کر اطلاعات، تعلیم وتفریح جیسے اہم فرائض بطریق احسن سرانجام دیئے، بلکہ تقریباً نوے کی دہائی کےآخر تک یہ برسرِ اقتدار طبقات کے مفادات کے تحفظ کا اہم اور مرکزی ترجمان ادارہ بھی رہا، جب تک سیٹلائٹ چینلز، ڈش، انٹرنیٹ اور موبائل ٹیلی فون ٹیکنالوجی نے اپنی رنگینیوں اور جلوہ گریوں سے اشرافیہ بشمول سول و ملٹری بیوروکریسی اور عوام الناس کو سحر میں مبتلا نہیں کیا تھا-
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا کے نئے اور پرکشش ذرائع نے پاکستان میں برسرِاقتدار، موقع پرست، دکھلاوہ پسند، لالچی اور عقل سے عاری طاقتور طبقات کو اپنی طرف گویا مقناطیسی قوت سے کھینچ لیا اور دہائیوں تک بے لوث رفاقت دینے والے اور بلامعاوضہ خدمات مہیا کرنے والےاپنے پرانے اور دیرینہ ساتھی ریڈیو پاکستان سے دور لے گئے- اتنا دور کہ اب اس ریڈیو پاکستان کا وجود حکمران طبق اپنے لئے بوجھ تصور کرنے لگاہے-

RADIO, PAKISTAN, EMPLOYEES, SACKING, WILL, EFFECT, KASHMIR, CAUSE
حالانکہ پوری دنیا میں ریڈیو کی اہمیت تاحال مسلمہ ہے، یہاں تک کہ دنیا کے سب سے بڑے سپر پاور ملک امریکہ کے تمام صدور ہر ہفتے ریڈیو پر قوم سے ہفتہ وار خطاب کرتے ہیں-اسی طرح بی بی سی ریڈیو، ریڈیو ماسکو، چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، ڈوئچے ویلے (جرمن ریڈیو)، آل انڈیا ریڈیو وغیرہ ہر دن گزرنے کے ساتھ مزید اہمیت اختیار کرکے ترقی کرتے کرتے چلے جا رہے ہیں، لیکن مقام افسوس کہ پاکستان میں برسر اقتدار طبقہ، اشرافیہ، بیوروکریسی، ہروقت ناقص اورناکام پالیسیاں بنانے والے پالیسی ساز اور کچھ نام نہاد دانشور اب ریڈیو پاکستان کو غیر ضروری، متروک ذریعہ ابلاغ ، اور سرکاری خزانے پر بوجھ تصور کرتے ہیں-
اس بناء پر گزشتہ دو دہائیوں سے حکومتی سطح پر سرپرستی نہ ہونے اور ضروری مالی وسائل کی عدم فراہمی کی بناء پر ریڈیو پاکستان کے پرانے میڈیم ویو ٹرانسمیٹرز تبدیل یا اپگریڈ نہیں کئے جا سکے، جبکہ ایڈہاک ازم کی پالیسی کے تحت اور سیاسی بنیادوں پر پی بی سی کےکئی نئے ریڈیو اسٹیشن اور چینلز کھول دئیے گئے، اسی طرح پہلے سے موجود قلیل مالی، انتظامی اور تیکنیکی وسائل پر مزید بوجھ پڑ گیا – اسٹیشنوں کی تعداد اور نشریات کی مقدار میں اضافہ تو ہوا، مگر اسکے نتیجے میں پروگراموں کی معیار پر اس قدر مجرمانہ سمجھوتہ ہوا کہ اب شاید ہزار ہا کوششوں کے باوجود بھی کھبی بھی وہ معیار دوبارہ حاصل نہ ہوسکے-
سرکار بالخصوص افسر شاہی کی طرف سے ایک اور بڑا دباؤ کہ اگر ریڈیو نے قائم رہنا بھی ہے تو اپنا کما کر اپنے اوپر لگائے اور سرکاری خزانے سے گرانٹ کا مطالبہ بلکل بھی نہ کرے- حالانکہ پوری دنیا میں سرکاری ریڈیو سرکار کے خرچے سے چل رہے ہیں- پھر یہ کہ سرکارکے ناک کے نیچے پی آئی ڈی کے ذریعے سرکاری اداروں کی پبلسٹی پر سالانہ اربوں روپے اشتہارات کی مد میں خرچ ہو رہے ہیں ۔مگر ریڈیو پاکستان کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں ہے- جبکہ ریڈیو پاکستان بلکل مفت میں ان تمام سرکاری اداروں کی پبلسٹی کرتا ہے اور ان کی تمام سرگرمیوں کو بھرپور کوریج دیتا ہے-
اس کے برعکس ریڈیو پاکستان خود کئی اداروں کو خدمات کے عوض میں ہر مہینے کروڑوں روپے کی ادائیگی کرتا ہے مثلاً واپڈا، این ٹی سی، پی ٹی سی ایل، سوئی گیس، شہری ادارے، وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی وغیرہ-
انتہائی حیرانی کی بات ہے کہ اپنے حکمران اور طاقتور طبقات تو ریڈیو پاکستان کو کچھ بھی نہیں سمجھتے مگر مشرق میں سرحد پار پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ملک بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی ریڈیو پاکستان ہی کو اپنے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور مقبوضہ کشمیر میں گڑبڑ پھیلانے کا انتہائی موثر ذریعہ قرار دیتا ہے-
اس کے طر عکس ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ بالخصوص ڈائریکٹر جنرل عنبرین جان اور ڈائریکٹر فنانس وایڈمن رضاعباس نقوی اد ادارے کو ختم کرنے کے درپے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ 16-دسمبر یوم سقوط مشرقی پاکستان 2020 کے دن ہی ریڈیو پاکستان کے درجنوں قابل افراد پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ریڈیو پاکستان کی سی بی اے یو نین کی بروقت احتجاجی آواز، کچھ دوستوں کی پس پردہ کاوشوں اورسیکرٹری صاحبہ کی دوراندیشی ودیگر اراکین بورڈ کی مخالفت کی بناء پربھی معاملہ سرد خانے میں داخل ہو گیا ہے تاہم ملازمین پر اب تلوار لٹک رہی ہے کوروناوائرس کی مہلک وبا کے سامنے پوری دنیا بےبس ہوچکی ہے، صحت کے نظام پر شدید دباؤ ہے، اور تعلیمی نظام تتربتر ہوچکا ہے تو ایسے میں کے حکمرانوں نے روزانہ چار گھنٹے کی ریڈیو سکول کے نام سےنشریات ریڈیو پاکستان کے نیٹ ورک سے شروع کردی ہیں ہیں-عجیب بات ہے کہ کل 663234 سول وفاقی ملازمین اور 10 لاکھ کے لگ بھگ سول دفاعی ملازمین میں آج کل پاکستان کے خزانے پر سب سے بڑا مالی بوجھ ریڈیو پاکستان کے تقریباً 2500 ملازمین کو قرار دیا جا رہا ہے – ایک طرف دیگر اداروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے، ملک میں اضلاع کی تعداد بھی مسلسل بڑھائی جارہی ہے جو اب 156 تک پہنچ چکی ہے، اسی طرح نئے ڈویژن بھی بن رہے ہیں، کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، ایس ایس پیز، ایڈیشنل ایس ایس پیز، ایس پیز، ڈی ایس پیز، تحصیلداروں، نائب تحصیلداروں، پٹواریوں وغیرہ کی ہر روز نت نئی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں- اسی طرح سینٹ، قومی اسمبلی، اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی اراکین کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے- کئی ادارے مثلاً نادرا، پیمرا، پیپرا، اوگرا، ایرا، نڈما , نیکٹا وغیرہ بھی قائم ھو چکے ہیں ملک میں آرٹ، کلچر، زبانوں، تہذیب و تمدن، ادب، فن، موسیقی، ہنر، علم و آگہی، شعور، تفریح، اطلاعات، کرنٹ آفیئرز، تاریخ، پاکستانیت، انسانیت، شرافت، احساس ذمہ داری، شہری ذمہ داریوں، محبت، بھائی چارے، حب الوطنی، اخوت و یگانگت وغیرہ جیسی اہم قومی ذمہ داریوں سے وابستہ ریڈیو پاکستان کے ڈھائی ہزار ملازمین ہیں- ان میں سے بھی اصل نشانہ شعبہ پروگرام کے ملازمین ہیں، جن کی موجودہ تعداد 230 کے لگ بھگ ہے-
مقامی، علاقائی، ملکی اور عالمی سطح پر ملک کا خوبصورت، خوشنما، پرامن، اور نرم خو چہرہ اجاگر کرنے والے ادارے مثلاً ریڈیو پاکستان، آرٹ کونسلز، پی ٹی وی وغیرہ کو بند کیا جارہا ہے، شہروں میں لائبریریاں، آرٹس کونسل ہال، مطالعاتی مراکز، کمیونٹی سینٹرز وغیرہ مسمار کرکے بڑے شاپنگ پلازے اور شادی ہال تعمیر کئے جارہے ہیں-
اسی طرح پاکستان میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جس میں سے فہم و ادراک اور شعورواگہی کو مکمل طور پر نکال کر حرص، لالچ، مادہ پرستی، ریاستی جبر، رعب و دبدبے سے بھر دیا گیا ہے جو یہاں کے بالادست طبقات، اشرافیہ اور حکمران طبقے کے لئے بالکل موزوں ترین ہے اور جس میں ریڈیو پاکستان جیسے اداروں کے لئے کم ہی گنجائش موجود ہے – اس لئے اس ادارے کے وجود کو کمزور سے کمزور تر کیا جارہا ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریڈیو پاکستان کی آواز دبانے سے کشمیریوں کے تحریک آزادی پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لہذا فوری طور پر ملازم کش پالیسیوں کو بند کروانا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ضروری ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے ۔۔۔۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website