counter easy hit

دعاؤں میں یاد رکھیں

Praying

Praying

تحریر : ایم سرور صدیقی
وہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے حسب ِ عادت کہا اپنی دعائوں اور محبتوں میں یادرکھنا ۔۔۔وہ بولے محبت کافی نہیں کیا؟ ”دعا میں کیا قباحت ہے ؟ ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا ”قباحت۔۔۔تو کوئی نہیں لیکن میں ایک رازکی بات بتائوں۔۔۔ وہ مسکرائے اور ہم نے تفہیمی اندازمیں سر ہلادیا دعائوں میں اسے ہی یادرکھا جاتاہے جس سے محبت ہو انہوںنے ہمارا گال تھپتھاتے ہوئے کہا۔۔۔جب بھی خیال آتاہے سوچتے رہتے ہیں دعا بھی کیا چیزہے؟ شاید امید۔عاجزی۔۔یا پھر دلاسہ۔۔ اسے دلی کیفیت کااظہار بھی کہا جا سکتاہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے رابطے کا مؤثر ذریعہ ۔۔۔بندہ جب اپنے مالک ِ حقیقی سے دعا مانگ رہا ہوتاہے محسوس ہوتاہے جیسے درمیانی فاصلے ختم ہوگئے ہیں۔۔ دوریاں مٹ گئیں اورپھر صادق جذبے حاوی ہوتے چلے جائیں تودل رب سے ہم کلام ہو جاتاہے۔۔یقینا دعا ایک غیر مرئی طاقت ہے۔۔اپنی عاجزی کا پرتو۔۔دعا تو بندے کے کمزورہونے کی دلیل ہے۔اپنے پروردگارکی برتری کااعلان بھی۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول کررہاہے توسمجھو تمہیں نواز رہاہے۔۔ عزت افزائی ۔۔۔۔بندہ پروری ہورہی ہے۔۔۔

اگردعائیں دیرسے پوری ہورہی ہے تو یقینا اللہ تمہارا صبر بڑھارہاہے۔۔ صبر آزمارہاہے۔۔۔دعاپوری نہیں ہورہی تو شاید اللہ کی رضا ہو اس کا بندہ اسے دل کی گہرائیوں سے ۔۔۔اپنے صادق جذبوں اور اپنی تنہائیوں میں یاد کرتارہے۔۔۔ دعا کبھی رد نہیں ہوتی اس کا صلہ ضرور ملتاہے اس لئے ہمیشہ دعا مانگتے رہا کرو اللہ سے مانگنا اسے بہت محبوب لگتاہے دعا تو دستک کی طرح ہوتی ہے اس کے در کبھی بند نہیں ہوتے ۔قبولیت کبھی جلدی کبھی دیر سے ہوتی ہے۔۔ دروازے پر بار بار دستک دینے سے دروازہ کھلتا لازمی ہے خواہ دیر سے ہی کیوں نہ کھلے۔ دروازے پر دستک ۔۔ملاقات کی شرط ِ اول ہے ، دستک دینے والا جواب کا منتظرہوتاہے دعابھی دستک کی مانند ہے اس کی رحمت کے جواب اور جواز کے حقدار دستک دینے والے ہی ہو سکتے ہیں جو دستک نہیں دیتے۔۔ اللہ کے حضور دعا نہیں کرتے وہ اس استحقاق سے محروم رہتے ہیں دستک دینے پر جواب ضرور آتاہے۔ دیر سویر کی۔۔جب انسان کی ہمت جواب دے جائے۔۔۔

کوئی آس ،کوئی امید، کوئی صورت بر نہ آئے تو اس کا آخری سہارا اللہ کی ذات ہوتی ہے جس کے حضور دعا کرکے اپنا سب دکھ درد بیان کرکے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے،شرمندگی کااظہار کرکے دل کا بوجھ ہلکا کر لینے میں ہی عافیت جانتاہے۔۔۔یقینا اللہ دعانیں سننے اورقبول کرنے والاہے ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ جب تم کسی بیمارکی عیادت کو جائو تو اس سے کہیں کہ وہ ہمارے لئے دعا کرے کئی پریشانیاں، دکھ اور تکالیف ہم ایک دوسرے کے لئے دعا کرکے مداوا بن سکتے ہیں۔۔۔ ہمیں کسی نے کہا بندے دعا تو دراصل ہماری شکست کااعتراف ہے جب انسان کی کوششیں ،کاوشیں بے کار چلی جائیں،فائدے کی بجائے نقصان ہورہاہو۔کوئی ہمدرد ،مونس یا غمخوار نہ ہو دل مایوسی میں گھر جائے گھپ ٹوپ اندھیرا حاوی ہو جائے جب اپنے سچے رب سے لو لگ جائے پھر وہاں سے دعا کا سفر شروع ہوتاہے۔۔کئی لوگ حد درجہ بخیل ہوتے ہیں کسی کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا بھی نہیں کرتے حالانکہ کئی مشکلیں، مصبتیں،پریشانیاں دعا سے ٹل جاتی ہیں شاید اسی لئے دعا کو عبادات کا مغز قراریا جاتاہے اللہ رب العزت کو وہ عبادت زیادہ محبوب ہے جس میں بندہ گڑگڑا کر اپنے مالک ِحقیقی سے دعا مانگتاہے۔

رحمت کا طلبگار ہوتاہے۔۔ اس کا فضل تلاش کرتا ہے ۔۔اپنی بے بسی ۔۔۔بے کسی کے عالم میںاپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کیلئے اشک بہتے ہیں ۔۔۔ بندہ اپنے گناہوںپرنادم ہوتاہے تو اس کی رحمت کو بھی جوش آجاتاہے وہ بھی ملنے کا سبب بن جاتاہے جو وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتادنیا میں وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کو دعا دینے کیلئے کوئی ہاتھ اٹھاتا دیتاہے سچ ہے دعا غم ٹال دیتی ہے۔۔۔۔بعض اوقات انسان کو یقینی نقصان کا یقین ہو تاہے۔۔کسی خوفناک حادثہ میں بال بال جان بچ جاتی ہے یا پھرکسی حاسد،ظالم کی چیرہ دستیاں پریشان کردیتی ہیں ج ان، مال ، اولادکی حفاظت کے لالے پڑ جاتے ہیں مگر اللہ کرم کردیتاہے سننے والے دیکھنے والے کہے بغیر نہیں رہتے کہ کسی کی دعا نے یہ ناممکن کو ممکن کردیاہے۔۔۔ یہ تو معجزہ ہی لگتاہے۔۔

دعا کے نتیجہ میں کبھی وہ بھی مل جاتاہے جس کی خواہش یا حسرت ہوتی ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے بلکہ پریشان ہو جاتاہے یہ تو میں اس کرم کے کہاں تھا قابل۔۔۔۔ والی بات ہے اکثر سناہے دعا میں بڑی طاقت ہے بڑی سے بڑی مصیبت سے نجات مل جاتی ہے دنیا میں کتنے ہی کام دعائوں کے طفیل ممکن ہوئے۔۔۔آقا ئے دو جہاں رحمت ِ عالم نے بھی اللہ سے دعا کی تھی ۔۔۔ یا اللہ! مجھے عمر بن ہشام دے دیدے یا عمر بن خطاب عطا کر۔۔۔اس دعا کے نتیجہ میں مراد ِ رسول حضرت عمر ِ فاروق مسلمان ہوئے۔۔۔۔ سومنات پر 17ویں حملے کے وقت جب مسلمانوں کے پائوں اکھڑنے لگے تو بت شکن محمود غزنوی نے ایک ولی ٔ کامل حضرت ابوالحسن خرقانی کا جبہ مبارک سامنے رکھ کر اللہ کے حضور فتح کی دعا مانگی ۔۔۔کبھی کبھی خیال آتاہے آخر دعا ہے کیا چیز؟ اللہ نے اس میں اتنی قوت ۔۔۔ اتنی تاثیر پیداکردی ہے کہ ناممکن کو ممکن۔۔۔۔ ان ہونی کو ہونی بنا دیتی ہے بگڑی سنور جاتی ہے اسی لئے حکم ہے کہ اللہ کے حضور دعا مانگا کرو۔۔یقینا دعا ایک غیر مرئی طاقت ہے۔۔اپنی عاجزی کا پرتو۔۔ دعا تو بندے کے کمزورہونے کی دلیل ہے۔اپنے پروردگارکی برتری کااعلان بھی۔۔۔

اگر اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول کررہاہے توسمجھو تمہیں نواز رہاہے۔۔ عزت افزائی ۔۔۔۔بندہ پروری ہورہی ہے۔۔۔اگردعائیں دیرسے پوری ہورہی ہے تو یقینا اللہ تمہارا صبر بڑھارہاہے۔۔ صبر آزمارہاہے۔۔۔دعاپوری نہیں ہورہی تو شاید اللہ کی رضا ہو اس کا بندہ اسے دل کی گہرائیوں سے ۔۔۔اپنے صادق جذبوں اور اپنی تنہائیوں میں یاد کرتارہے۔۔۔ دعا کبھی رد نہیں ہوتی اس کا صلہ ضرور ملتاہے اپنے دوستوں،عزیزو اقارب سے ہمیشہ کہتے رہنا چاہیے ہمیں بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔۔۔ یاد رکھیں دعا صدقہ جاریہ بھی۔۔۔ عاجزی کااظہار بھی اور اللہ تعالیٰ کو عاجزی بہت پسند ہے امیدہے کہ یہ کالم پڑھنے والے ہمیں بھی اپنی دعائوں اور محبتوںمیں یادرکھیں گے ایسا چندقارئین نے بھی کرلیا تو ہم سمجھ لیں گے کالم لکھنے کا حق ادا ہوگیا۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی