counter easy hit

پشاور کی مائیں آج بھی اپنے بچوں کا قصور پوچھتی ہیں

Crying Women

Crying Women

تحریر : ایم آر ملک
مصر کا ایک مسلمان شاعر محمد الماغوط دنیا بھر کے دکھی انسانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ”تمھارے پاس جو کچھ بھی ہے خوف ،چیخیں ،اُداسیاں ،بیماریاں ،پھٹے ہوئے پیٹ ،کٹے ہوئے جسم اور نچے ہوئے ناخنوں سمیت جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ مجھے روانہ کردو دنیا کے کسی بھی گلی کے کسی بھی چائے خانے کے پتے پر میرے نام بھیج دو کیونکہ میں انسانی دکھوں اور مصیبتوں کی ایک بہت بڑی فائل تیار کر رہا ہوں جب اُس پر بھوکے پیٹ اپنے نشان ثبت کر دیں گے اور انصاف کیلئے محو انتظار پلکیں دستخط کر دیں گی تو یہ فائل خدا کے حضور پیش کر دی جائے گی ” میں 1997سے کارزار ِ صحافت میں ہوں ،بہت کچھ لکھا صفحہ قرطاس پر دوسروں کی جنگ لڑی ،ٍدوسروں کے دکھوں کو اپنے آپ پر سہنا آسان کام نہیں میں نے جس فرد کی زندگی ،اُس کے غم کو لکھا اُس میں خود کو شامل کیا اور انسانی دکھوں کو لفظوں کی شکل دی لیکن میں نہیں جانتا کہ ان کاغذوں کو ایسی کیا بد دعا ہے کہ آپ اِن پر کتنے ہی جلتے حروف رکھ دیں یہ کا غذ نہیں جلتے جن لوگوں کے پاس احساس ہے جلتے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے اُن کے احساسات سلگنے لگتے ہیں مگر کوئی کا غذ نہیں جلتا

شاید یہ بد دعا نہیں ہے بھی تو بد دعا نہیں کہنا چاہیئے اگر ایسا ہوتا تو خدا جانے دنیا کی کتنی کتابیں اپنے حروف کی آگ سے جل گئی ہو تیں پشاور کی مائوں کے اس سوال پر کہ ”ہمارے بچوں کا قصور کیا تھا ”پرلکھتے ہوئے بھی مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے ظلم اور سفاکی پر بھی یہ کاغذ نہیں جلے پشاور کا سانحہ ہوا تو ایک دوست نے کہا کہ مائیں اپنے بچوں کے بستوں میں کفن رکھنے لگی ہیں یہ خوں آشام منظر میں ڈوبے ہوئے اس شہر کی مائوں کا نوحہ ہے جو آنکھ کے دشت میں دہکتے ہوئے الائو لئے زندگی کی دہلیز پر دل کے گرداب میں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح کئی دنوں سے پشاور کی شاہرات پر سراپا احتجاج انصاف کی آرزو پر ماتم کناں ہے

وقت کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹ کرانصاف سے محرومی کے گہرے گڑے میں پڑے ہوئے افسردہ ڈھانچے فریاد کر ر ہے ہیں67برس قبل امن کے مذہب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی دھرتی پر قانون اندھا ہے ،انصاف لنگڑا ہے ،منصف بہرا ہے ،عدالتیں مقتل اور تھانے آبر ئوں کی بولی لگانے والے بازار بن گئے ان معصوم شہدا کے باپ اپنی ٹوٹی ہوئی لاٹھیوں کی لحد سے لپٹے ہوئے زرد غموں کے جھرمٹ میں موت اور انصاف کے انتظار کی شمع جلائے سسک رہے ہیں قاتل درندوں نے مائو ں کی آغوش سے گلاب چھین کر ان میں روح تک اُتر جانے والے کانٹے بھر دیئے میں ان مائوں کو کئی روز سے شاہرات پر دیکھتا ہوں

بہنیں ہیں کہ آنسو ئوں میں بھیگے ہوئے آنچل آہوں کی دھوپ میں سکھا رہی ہیں مگر آنچل ہیں کہ بھیگتے چلے جارہے ہیں عرصے بعد اداس چہرے کے افق پر صبح نو کی کرن دیکھی شاید یہ سچے دوست کا ملن تھا مگر میرے ہاتھوں میں جو نوحہ تھمایا اُسے صفحہ قرطاس پر نہ بکھیروں تو تحریر کی تشنگی باقی رہے گی یہ شفقت پدری کی شدت کا اظہار ہے کہ ”شہیدو تم کو ہم سے بچھڑے بلکہ چھینے ہوئے دو ماہ سے زائد ہو گئے ہیں مگر تاحال زخم تازہ ،آنکھیں اشکبار ،فطرت کے قانون سے اختلاف نہیں مگربر سر اقتدار طبقہ کی بے حسی ۔ بیگانگی ، سیاست دانوں کی پہلو تہی ،معاشرے کی پرانی بھول جانے کی عادت قانون فطرت کو للکار رہی ہے ہم بے بس ،بے کس،بے نور آنکھوں کے ساتھ انصاف کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں ،ہر آشنا چہرے کو آنکھوں کے اوپر ہاتھوں کا شیڈ بنا کر پہچاننے کی کوشش میں مصروف ہیں کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے رشتہ دار ،ہمسفر ،بہی خواہ ،دوست ،عوامی خدمت کے دعویدار ،نامور صحافی ،انتظامی ستون ،آزاد عدلیہ ان سب کو کیا ہو گیا ہے ؟
کیا یہ کسی کی فریاد سے بے بہرہ ہیں ؟
کیا صحافی کے قلم کی سیاہی ختم ہو گئی ہے ؟
رشتوں کے خون میں سفیدی کا رنگ غالب آگیا ؟

آشنائوں کی ناشناسائی یہ سب کیا ہے ؟ شاید یہ بھی امتحاں میں شامل ہے اسی لیئے زندگی کا پیپر صبر کے قلم ،عبرت کے قرطاس ،شرافت کی گہرائی میں حل کرنا ہوگا ،زنجیریں کھٹکھٹانے کیلئے دستک کی سکت پیدا کرنا ہوگی ،فکر فردا کے مدہوش معاشرے کو جھنجھوڑنا ہوگا کل یک بیک تیری یاد آئی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آئے جیسے ہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آئے اک ماں کا نو حہ ہے کہ رخت سفر باندھ رکھا ہے نہ جانے تہی دست کب تیرے پاس پہنچ جائوں اُمیدوں کا بیکراں سمندر لیئے احساس کی سولی پہ لٹکی ہوئی ماں تیری غم سے رنجور ،تیری یاد کے زخموں سے چکنا چور تیری یا د میں پل پل گم ہے ،گر قبول اُفتد زہے عزو شرف ”قلم بھی بڑے دنوں سے خاموش ہے بہت دن گزرے اخبارات کے صفحات سے بھی دور ہوں اور کبھی کبھی لکھتا بھی نہیں روانی منجمد ہو جاتی ہے

شاید یہ آنسوئوں کی کسی کہانی اور دکھوں کے کسی نوحے کا اثر ہوتا ہے جبھی تو ہاتھ میں تھامتا ہوں تو لکھنے کیلئے یہ ساکت ہو جاتا ہے اک ماں کے کرب کی تان بھی صحافی کے قلم پر ٹوٹی ہے میرے ہاتھ میں تھمے اس قلم نے معاشرے کی فریب کاری کو ننگا کیا ،ایک طبقہ کی بد دیانتی ،عداوت ،نفرت ،لوٹ مار پر لکھا اور آج بھی یہ کوشش ہے کہ یہ قلم وہ نوحے لکھے جو میرا دل چاہتا ہے ،وہ مرثیہ لکھے جو کوئی سنے تو اُس کا کلیجہ پھٹ جائے پشاور کے شہدا پر ایک آزاد نظم کے ساتھ اختتام کر رہا ہوں جس کا عنوان ہے ”سوالِ عدل”
میرے اخبار کے صفحات پر
گھمسان کارن ہے
سیاہ لفظوں کے شانوں پر
سجیلے عہد ناموں کے جنازے ہیں
لہو ُ کے سرخ چھینٹے ناشتے کی میز پر ہر سمت پھیلے ہیں
ذہن کب تک چپکے ذائقوں کا زہر چکھے گا
سوالِ عدل اب کیسے اُٹھے گا ؟
صدائوں میں بھنور پڑنے لگے ہیں

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک