counter easy hit

’’جزا سزا‘‘ ایک ناولٹ ایک تاریخ

اردو کا ایک خاصا معروف اور کثیر الاستعمال لفظ ہے ہلچل۔ اور اس کا مفہوم بھی سیدھا سادہ ہے ہر کسی کو پتہ ہے کہ ہلچل کے معنی کیا ہیں؟ مثلاً ابھی ابھی جو گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی معاشرے اور نظام میں پانامے بلکہ صحیح معنی میں عمران خان کی وجہ سے مچ رہی ہے اور شاہد آگے بھی لمبی چلے، لیکن اصل میں ہلچل ایک مفرد لفظ نہیں ہے بلکہ یہ دو الفاظ ہل اور چل کا مجموعہ ہے وہی ’’ہل‘‘ جو کھیت میں ’’چل‘‘ جاتا ہے۔ اس ہل اور چل کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ اوپر کی مٹی نیچے چلی جاتی ہے اور نیچے کی مٹی اوپر آ جاتی ہے اور کسی ملک یا خطے یا نظام میں جب ’’ہل‘‘ چلتا ہے تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے کنگال صاحبان مال ہو جاتے ہیں اور صاحبان مال کنگال ہو جاتے ہیں۔

موری کی اینٹ چوبارے میں لگ جاتی ہے اور چو باری کی اینٹ کسی کوڑے کے ڈھیر میں بلکہ ٹکڑے ہو کر عدم پتہ ہو جاتی ہے۔ زراعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کھیت میں صرف آٹھ انچ مٹی کام کی ہوتی ہے اور اگر ’’ہل‘‘ اس گہرائی کے اوپر اوپر چلتا ہے تو زمین کی زرخیزی بڑھتی ہے اور اگر اس سے نیچے والی مٹی اوپر آ جائے تو کھیت کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔ اس نیچے سے آنے والی مٹی کو دھوپ وغیرہ سے زرخیز ہونے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے تب کہیں جاکر وہ کاشت کے قابل ہوتی ہے۔ اور اگر بہت ہی گہرائی سے مٹی اوپر آئی ہو یا اوپر والی دو چار فٹ مٹی نکال لی گئی تو اسے زرخیز کار آمد ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن یہ ساری بحث ہم نے زراعت پر کچھ کہنے کے لیے شروع نہیں کی ہے بلکہ ہم اس ’’مٹی‘‘ کی بات کرنا چاہتے ہیں جو کسی ملک کسی خطے یا کسی نظام میں ’’ہل چل‘‘ جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔

قیام پاکستان میں ایک بہت بڑی ہلچل تھی اوپر اوپر کی بہت ساری زرخیز مٹی زیر زمین چلی گئی اور بہت نیچے سے مٹی اوپر آ گئی جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا کہ یہ کھیت ابھی تک کھیت نہیں بن پایا ہے وہی ہلچل اور ہلچل کا تسلسل جاری ہے۔ اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ ساری تمہید ہم نے ایک بہت ہی خوبصورت ناولٹ پر بات کرنے کے لیے باندھی ہے جو محترمہ ساجدہ جعفر کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ محترمہ ساجدہ جعفر بھٹو دور کے ایک معروف اور مرکزی وزیر ملک محمد جعفر کی صاحبزادی ہیں اور ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہونے اور نشوونما پانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا وژن اچھا خاصا فراخ اور وسیع ہو گیا۔

’’جزا و سزا‘‘ کے نام کا یہ ناولٹ نہ تو صخیم ہے نہ صمیم لیکن اس کے اندر گویا قیام پاکستان سے لے کر موجودہ لمحے تک ستر سال کی تاریخ جھلک رہی ہے۔ اس کا مرکزی کردار جو ایک محفل سماع میں قوالوں والوں کے خاندان سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ کردار سرشار منور منظور سے شروع ہو کر درجہ بدرجہ ایس منور منظور اور پھر سید منور منظور کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا نو مولود پاکستان کی بیوروکریسی میں اپنے فن کے کمالات دکھاتا ہے۔

سی ایس ایس کی جعلی ڈگری کے ساتھ وہ پہلے مشرقی پاکستان میں 1971ء تک گل کھلاتا ہے اور پھر دو مرتبہ ہجرت کے تمغے سجا کر پاکستانی بیوروکریسی میں ان ہو جاتا ہے۔ اور وہ سب کچھ کرتا ہے جو نیچے کی مٹی اوپر آ کر کرتی ہے، یا کر سکتی ہے۔ یہ صرف کہانی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے پاکستان بننے کے بعد نیچے والی مٹی اور پھر اس مٹی نے جس طرح سارے کھیت کی مٹی پلید کی ہے اس کی تاریخ ہے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں صرف نام سچے ہوتے ہیں اور واقعات جھوٹے ہوتے ہیں۔ جب کہ افسانے میں صرف نام فرضی ہوتے ہیں واقعات حقیقی ہوتے ہیں۔ اور یہ بات ساجدہ جعفر کے اس ناولٹ پر سو فیصد ٹھیک بیٹھتی ہے کہ بہت بڑی بات بہت ہی کم الفاظ میں کہی گئی ہے۔ اسے کوزے میں سمندر بند کرنا بھی کہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ وقت سمندروں میں تیرنے کا نہیں ہے۔ انسان کے پاس وقت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔ اس لیے عربی کہاوت کے مطابق قل و دل‘‘ سے کام لینا وقت کا تقاضہ ہے۔ ناولٹ کا ایک اور خاصا اس کا عام فہم اور موثر اختصار کا حامل ہونا ہے۔ بہت دور دراز کے فلسفے اس میں نہیں بگھارے گئے ہیں بلکہ چن چن کر کم سے کم الفاظ میں بہت سارا مفہوم سمویا گیا ہے۔ ویسے تو یہ ساجدہ جعفر کا پہلا ناولٹ ہے لیکن ناول سے ایسا بالکل بھی نہیں لگتا کیونکہ اس میں کہیں بھی نا پختگی اور مبتدی پن دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کافی عرصے تک اس پلاٹ اور تھیم کو پکایا گیا ہو اور اچھی طرح تسلی ہونے پر پیش کیا گیا ہو۔

بہرحال ہم تو کہیں گے کہ ۔ ’’ہے پڑھنے کی چیز اسے بار بار پڑھ‘‘ کیوں کہ یہ کسی تخیلاتی دنیا کا قصہ نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی اور ہمارے ارد گرد کے واقعات کا قصہ ہے جو بہت ہی ناقابل رشک اور ناپسندیدہ ہے کہ یہ ملک بنا کس لیے تھا لاکھوں لوگوں نے قربانیاں کس مقصد کے لیے دی تھیں لاکھوں عصمتیں تار تار کس لیے ہوئی تھیں اور ہاتھ کیا آیا ایس منظور اور سید منظور۔