counter easy hit

جمہوریت کے کھیل تماشے

دنیا میں جمہوریت کو متعارف کرائے اب لگ بھگ ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں اس طویل عرصے میں ترقی یافتہ ملکوں میں تو جمہوریت کسی حد تک عوامی ہو رہی ہے لیکن پسماندہ ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت ابھی تک خواص کے حصار میں قید ہے اور خواصی ہوکر رہ گئی ہے۔  تاریخ میں اگر جمہوریت کبھی عوامی رہی ہے تو وہ قبل مسیح میں یونان میں شہری حکومتوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔

قبل مسیح اگرچہ قدیم ترین دور سمجھا جاتا ہے لیکن اس دورکے اکابرین اس قدر جمہوریت شناس تھے کہ انھوں نے اپنی جمہوریت کو حقیقی معنوں میں جمہوریت بنایا اور جمہوریت حقیقی معنوں میں اس وقت جمہوریت بنتی ہے جب فیصلہ سازی کا اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس دور میں آبادی بہت کم تھی اور لوگ اکٹھے ہوکر فیصلے کرتے تھے جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، یہ ممکن نہ رہا کہ یونان کی شہری حکومتوں کی طرح عوام ایک جگہ جمع ہوکر فیصلے کریں لیکن یونان کی شہری حکومتوں نے دنیا کو یہ تو بتا دیا کہ جمہوریت کا مطلب فیصلوں کا اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور پھیلاؤ کی وجہ سے ماضی کے جمہوری مفکرین نے نیابتی جمہوریت کو متعارف کرایا یعنی عوام ’’اپنے نمایندے‘‘ چن کر قانون ساز اداروں میں بھیجیں اور وہ قانون سازی کریں لیکن اس نیابتی جمہوریت کا اشرافیہ نے یہ حشر کیا کہ عوام کو جمہوری اداروں سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا اور چوروں ڈاکوؤں لٹیروں سے قانون ساز اداروں کو بھر دیا، نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ عوام کے ان نمایندوں اور ان کی آل اولاد پر اربوں روپوں کی کرپشن کے کیس چل رہے ہیں اور میڈیا میں ہر روز قومی اداروں میں اربوں روپوں کی کرپشن کی خبریں آرہی ہیں۔

اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابی نظام صنعتوں میں سرمایہ کاری کے نظام میں بدل دیا گیا ہے جہاں ایک کے اکیس بنانے کا موقع دستیاب ہوتا ہے۔ انتخابی سرمایہ کاری سب سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری بن گئی ہے۔ اس لیے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار (سیاستدان) بے دھڑک کروڑوں بلکہ اربوں روپے جمہوری صنعت پر آنکھ بند کرکے لگا دیتے ہیں اور عوام کا ’’مینڈیٹ‘‘ لے کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں پھر اپنے لگے ہوئے سرمائے سے سو گنا زیادہ سرمایہ واپس لینے کی دھن ان پر اس طرح سوار رہتی ہے کہ عوام اور عوامی مسائل ان کے ذہنوں سے حرف غلط کی طرح نکل جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر ہم پسماندہ ملکوں کی جمہوریت پر نظر ڈالیں جہاں ہمارا ملک سرفہرست نظر آتا ہے تو سوائے لوٹ مار کے کچھ نظر نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں 21 کروڑ عوام رہتے ہیں ، ان میں تعلیم یافتہ باشعور لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں، بے شک عوام کی بھاری اکثریت ناخواندگی کی وجہ ہماری جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف نہیں لیکن ہر گاؤں ہر قصبے ہر شہر میں پڑھے لکھوں باشعور اور ہماری فراڈ جمہوریت کے اسرار و رموز سمجھنے والے عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کو اس نام نہاد اشرافیائی جمہوریت کے زہریلے اثرات سے واقف کرائیں اور انھیں بتائیں کہ اپنی بستیوں، اپنے دیہات، اپنے شہروں سے اپنی قیادت نکالیں اور اپنی قیادت کو قانون ساز اداروں میں بھیجیں تاکہ وہ عوامی مفادات کو سامنے رکھ کر قانون سازی کر سکیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو نیابتی یا اشرافیائی جمہوریت کے ’’کارناموں‘‘ سے روشناس کرا کر انھیں اپنی آبادیوں سے اپنی قیادت نکالنے کی ترغیب فراہم کریں تاکہ اشرافیائی جمہوریت سے نجات حاصل ہوسکے۔

ہماری اشرافیہ آج کل بہت متحرک ہے کیونکہ اگلے سال ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔اس حوالے سے اپنی  جعلی مقبولیت دکھانے کے لیے دیہاڑی دار اور اپنے حلقہ اثر کے عوام کو بڑی تعداد میں اکٹھا کرکے یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’’عوام ان کے ساتھ ہیں‘‘ ایک بڑے سے بڑے جلسے میں زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے، لاکھ دو لاکھ کا جلسہ جس پر کروڑوں روپوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے لیڈروں کی مقبولیت کا ثبوت بن جاتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا ان بڑے جلسوں کی کوریج کرکے عوام میں ان جلسوں کے نوشاؤں کو عوام کا مقبول ترین لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

ہمارے ملک کی آبادی تازہ مردم شماری کے مطابق 21 کروڑ کے لگ بھگ ہے اگر عوام میں ذرا سی بھی عقل ہو تو وہ ان لاکھی دو لاکھی جلسوں سے مرعوب ہوکر جلسوں کے نوشاؤں کی مقبولیت سے متاثر ہونے کے بجائے یہ سوچیں کہ اکیس کروڑ عوام میں لاکھ دو لاکھ کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ جب کہ گھروں میں بیٹھی خاموش اکثریت ان جلسوں کے نوشاؤں پر لعنت بھیج رہی ہوتی ہے اور عوام کی یہ خاموش اکثریت ان رہنماؤں کی لوٹ مار کے کارناموں سے واقف ہوتی ہے۔ہمارے انتخابات میں اگر 50 فیصد ووٹر ووٹ دینے باہر نکلیں تو اسے جمہوریت کی بہت بڑی فتح قرار دیا جاتا ہے جب کہ ووٹ دینے سے انکاری 50 فیصد سے زیادہ اکثریت اصل معنوں میں اس نام نہاد اشرافیائی جمہوریت سے سخت نالاں اور بیزار ہوتی ہے۔ کیا ہمارے سیاسی اور جمہوری سورما اس خاموش اکثریت کی رائے کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں؟

جملہ ووٹوں میں سے 25-20 فیصد ووٹ لے کر کامیابی کا جشن منانے والے اور مینڈیٹ کا ترانہ گانے والے ستمگروں کو کیا یہ احساس نہیں ہوتا کہ عوام کا یہ 30 فیصد سے کم مینڈیٹ بھی انتخابی وعدوں سے مشروط ہوتا ہے جو لوگ ووٹ دیتے ہیں وہ انتخابات لڑنے والے ’’رہنماؤں‘‘ اور ان کی جماعتوں کے منشور اور وعدوں کے حوالے سے ووٹ دیتے ہیں، اگر انتخابات جیتنے والی جماعتیں اپنے منشور اور انتخابی وعدوں سے انحراف کرتی ہیں تو پھر انھیں حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہوتا لیکن تماشا یہ ہو رہا ہے کہ اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزاموں میں اقتدار سے محروم ہونے والے مینڈیٹ کی توہین اور خلاف ورزی کی باتیں کر رہے ہیں۔

جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام پر رکھی جاتی ہے اگر بلدیاتی ادارے فعال اور بااختیار نہ ہوں تو جمہوریت بے معنی اور فراڈ ہی کہلائی جاسکتی ہے ہماری جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ 70 سال میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے۔ اگر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تو فوجی حکومتوں ہی میں کرائے گئے۔ کیا اس کارنامے کا ہماری جمہوری ایلیٹ کے پاس کوئی جواب ہے؟ اس بار جمہوری تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ہیں لیکن منتخب لوگ روتے پھر رہے ہیں کہ نہ انھیں مالی اختیارات حاصل ہیں نہ انتظامی اختیارات حاصل ہیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کو بچانے کے لیے ہمارے جمہوری رہنما پارلیمنٹ میں دھرنے دیتے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے سر سے کفن باندھ کر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور عوام حیرت سے اس جمہوریت کے کھیل تماشوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔