counter easy hit

پارٹی منشور، دور کے سہانے ڈھول

پاکستان کی انتخابی تاریخ شائد ہے کہ عوام کی حیثیت اُس کامے کی سی رہی ہے جو چوہدری صاحب کی زمینوں پہ پورا سال اَناج کاشت کرتا رہتا ہے اور سال کے آخر میں بمشکل چند بوری اَناج اُسے مل پاتا ہے ، وہ بھی اِتنا کہ سال میں کچھ دن فاقہ نہ رہے تو پورا بھی نہ ہو۔ اسی طرح پاکستان کے عوام سیاسی پارٹیوں کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔ انہیں الفاظ کے جال میں اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن تک گاڑی کی مفت سہولت یا پھر دن کے مفت کھانے پہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار اُن ہاتھوں میں دے آتے ہیں جو اِس قابل بھی نہیں ہوتے۔آگے بڑھیں تو برادری ازم نے قوم کو ایسے جکڑا ہوا ہے کہ ووٹ پہ نوبت طلاق ، قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔ طاقتِ سوال عوام میں پیدا ہو نہیں رہی، ہمتِ جواب ہمارے حکمران پھر کیوں کر اپنے اندر پیدا کریں۔

پارٹی منشور کسی بھی سیاسی پارٹی کی نہ صرف انتخابی مہم کا بنیادی جزو ہوتا ہے بلکہ اُس سیاسی پارٹی کی اساس اورجہدوجہد کے نظریے کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ لیکن ہماری بھولی عوام انتخابات کے موقع پر کسی بھی سیاسی پارٹی سے اتنا بھی سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتی کہ جناب آپ نے پچھلے انتخابات میں پیش کردہ منشور پہ کس قدر عمل کیا ہے جو اس دفعہ پھر دامن پھیلائے ہمارے سامنے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور 2013 میں پہلے صفحے پہ ہی ایک حاشیہ جگمگا رہا ہے”روٹی کپڑا اور مکان، علم صحت سب کو کام، دہشت سے محفوظ عوام، اونچا ہو جمہور کا نام” ۔ اب انتخابات 2018 کی مہم کے دوران کوئی جیالا یہ پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرئے گا کہ اس مرکزی نعرے میں قافیہ، ردیف ملانے کے علاوہ عملی طور پر آپ نے عوام کو کیا دیا ہے۔ کیا تھر میں غذائی قلت سے بچے مرنا ختم ہو گئے؟ کیا اندرون سندھ نجی جیلیں بند ہو چکی ہیں؟ کیا شہری علاقوں سے کوڑا اُٹھا لیا گیا ہے؟ کیا کرپشن کا جن بوتل میں بند ہو چکا ہے ؟ مگر یقیناًیہ سوالات کوئی نہیں اُٹھائے گا اور اس سال پرانا منشور نئی کتابت میں آ جائے گا۔ وفاق و پنجاب میں حکمران ن لیگ کا 2013 کا منشور ملاحظہ کیجیے، سب سے زیادہ زور معاشی بحالی پہ تھا جس کے بعد توانائی اور زراعت کا نمبر آتا تھا۔ مگر کوئی متوالا کبھی کھڑا ہو کے سوال کیوں نہیں کرتا کہ جس معیشت کی بہتری کا آپ نے وعدہ کیا تھا وہ کہاں بہتر ہوئی ہے؟ جس توانائی کے شعبے میں خوشحالی کا آپ نے وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہوئی ہے کہ لوڈ شیڈنگ 8 گھنٹے تک پہنچ چکی اور مزید اضافہ متوقع ہے؟ گیس گرمیوں میں میسر نہیں تو سردیوں میں کہاں سے آئے گی؟ اور اگر آپ کی تیسری بڑی ترجیح زراعت تھی تو آپ نے سبزہ اُکھاڑ کے اینٹ و سیمنٹ کے ستون بنانے کو ترجیح کیوں بنا لیا؟ اور جتنا خرچہ آپ نے ان ستونوں پہ کیا وہ آپ نے کھیت سے منڈی کی سڑک بنانے پہ کیوں نہیں کیا؟ اور اس فہرست میں جو ترجیحات سماجی تبدیلی، جمہوری حکمرانی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، روزگار، وغیرہ شامل ہیں وہ کب پایہ تکمیل تک پہنچیں گی؟ اورایک دہائی سے پنجاب ، پانچ سال سے وفاق میں حکومت سے نہیں حاصل ہو سکے تو اب کون سی گیدڑ سنگھی آ جائے گی کہ یہ منشور دوبارہ حکومت ملنے پہ پورا ہو سکے گا؟ مگر یہاں بھی سوال نہ ہو سکتا ہے نہ ہو گا، کہ سوال کرنا جُرم ٹھہرا ہے۔پہلی دفعہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف جس کا نعرہ رہا ہے انصاف، انسانیت اور خود داری، اور جس کے 2013 کے منشور کی ترجیحات میں توانائی کے بحران سے نمٹنا، کرپشن کا خاتمہ، احتساب ، معاشی اصلاحات، ریونیو کے ذرائع وغیرہ شامل تھے کوئی ٹائیگر کھڑا ہو کے سوال بلند کرئے کسی جلسے میں ، کیا خیبر پختونخواہ میں انصاف کا نظام قائم ہو چکا؟ کیا احتساب کا شکنجہ کسا جا چکا؟ کیا کرپشن نا قابل معافی جرم بن چکا؟ کیا معاشی طور پر یہ صوبہ خود انحصاری حاصل کر پایا؟ ریونیو اکٹھا کرنے کا نظام وضح ہوا؟ کوئی شک نہیں کہ نئی پارٹی کے طور پر تھوڑا فائدہ تحریک انصاف کو ملتا ہے مگر کوئی تو ان تمام سوالوں میں سے کوئی سوال کرئے کہ آپ پانچ سال میں ایک صوبے میں جو اہداف حاصل نہیں کر پائے تو کس بنیاد پہ وفاق میں حکومت بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں؟ اور یقیناًاس دفعہ بھی منشور الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ رنگین کتابچے کی صورت سامنے آ جائے گا، بس 2013 کے بجائے اس پہ 2018پرنٹ ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی جیسی لبرل جماعتوں سے لے کر جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتوں تک اور ان کے درمیان آنے والے تمام سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی ایک ایسی پارٹی دکھا دیجیے جو دعویٰ کر پائے کہ منشور پہ عمل درآمد ہو چکاہے۔

بطور قوم ہم جب تک اپنے اندر قوتِ سوال پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک سیاسی پارٹیاں خود کو جوابدہ تصور بھی نہیں کریں گی۔ اور ہم بناء سوال انگوٹھے پہ سیاہی ملتے رہیں گے تو سیاسی پارٹیاں بھی اپنے منشور پہ حقیقی معنوں میں عمل کے بجائے کور ہی رنگین کرتی رہیں گی۔ اور ہمارے انگوٹھے کی سیاسی ہمارے مقدر پہ چھائی رہے گی۔ سوال کیجیے، کہ سوال آپ کا حق ہے۔ جواب لیجیے کہ جواب دینا اُن کا فرض ہے۔