counter easy hit

پیرس : یہودیوں کے مرکزی سیاسی اور دینی عالم “ربی” کا مخصوص مذہبی ٹوپی ’کپا‘ کے پہننے پر اختلاف

Zvi Ammar

Zvi Ammar

پیرس (اے کے راؤ) یورپ میں لندن اور پیرس کے بعد یہودی آبادی کے تیسرا بڑا شہر مارسائی کے یہودیوں مشاورتی مرکز کے سربراہ زوی عمار کا کہنا ہے کہ یہودیوں کی حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے موجودہ حالات میں اہل یہود کو اپنی وہ مخصوص مذہبی ٹوپی ’ کپا‘ کو پہننا چھوڑ دینا چاہیے۔

تاہم فرانس میں یہودی عالموں کے سربراہ کا بیان اس کے برعکس ہے۔ انھوں نے یہودیوں سے کہا ہے کہ وہ زوی عمار کے مشورے پر عمل نہ کریں۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہودی اور ان کے سر کی ٹوپی تشدد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ سب اس واقعہ کے بعد ہوا جب سموار کو مارسائی میں ایک 15 سالہ لڑکے نے 35 سالہ یہودی استاد بینجمن امسیلیم پر ISIS کے ایماء پر اس وقت خنجر سے حملہ کیا جب انھوں نے سر پر یہودیوں کی مخصوص ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ اس حملے میں بینجمن امسیلیم کا ہاتھ اور کندھا زخمی ہوا۔

فرانسیسی اخبار سے گفتگو میں زوی عمارنے یہودیوں سے کہا کہ وہ کپا نہ پہنیں تاکہ ان کی بطور یہودی شناخت نہ ہو سکے۔ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2016 میں ایک جمہوری ملک میں ہمارے لیے یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے اور اس کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدمات کرنے ہوگے۔ یاد رہے حالیہ مہینوں میں یہودی مکینوں پر فرانس میں یہ تیسرا بڑا حملہ ہے۔

اس سے قبل گذشتہ برس نومبر میں ایک یہودی استاد پر تین افراد نے حملہ کیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ سال اکتوبر میں بھی تین یہودیوں پر حملہ کیا گیا تھا۔ 13 نومبر کی پیرس دہشت گردی میں باتکلاں تھیٹر پر حملہ بھی اسی سوچ کی ایک کڑی تھی۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے اس حملے کو ناجائز اور بہت برا قرار دیا ہے جب کہ ملک کے وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ یہود مخالف جارحانہ اور نفرت انگیز حملہ ہے۔

فرانس میں یہودیوں کی قل تعداد پانچ لکھ کے قریب ہے ، فرانس کے بدلتے ہوئے حالات میں 2014 میں پچاس ہزار یہودیوں نے فرانس سے اسرائیل ہجرت کرنے کے لیے معلومات لیں۔ غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق 2015 میں 8 ہزار یہودی فرانس چھوڑ کر اسرائیل جا چکے ہیں۔ ان8 ہزار میں یوحان ڈوما بھی شامل ہے جو کوشر مارکیٹ کے کولڈ سٹور میں چھپ کر حملہ آور سے بچنے میں کامیاب رہا۔ ایک ٹی وی انٹریو میں یو حان ڈوما کہنا تھا کہ “” ہم یہاں موت کا انتظار نہیں کر سکتے۔”” یوحان ڈوما کا یہ بیان اسرائیل کےفرانسیسی بولنے والےشہریوں کے سارے ماحول کا عکاس ہے جو فرانسیسی بولنےاسرائیلی یہودیوں میں آج کل پایا جاتا ہے۔ یوحان ڈوما نے فرانس کے یہودی شہریوں میں پائے جانے والےایک رجحان سے پردہ اٹھایا ہے۔

فرانس کے مراکش نزاد یہودی البرٹ لیوی جن کے بیوی اور بچے اسرائیل جا چکے ہیں اس سارے ماحول کے میڈیا کو ذمہ دار گردانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں سے لےکر فلسطینیوں کے انتفادہ تحریک کو جس انداز میں رپورٹ کیا جاتا ہے اس سے اسرائیل کو برا ثابت کیا جا رہا ہے جو یہودیوں کے لیے کسی بھی ملک میں رہنے کے لیے کسی بھی طرح ٹھیک نہیں۔ لیکن فرانس حکومت کا موقف اس کے بر عکس ہے حکومت کا کہنا ہے کہ فرانس اپنے شہریوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ یہودی آبادی فرانس میں بحفاظت رہ سکتی ہے۔