counter easy hit

کارلوٹ پرکنز گل مین میں نے ”دی ییلووال پیپر” کیوں لکھا

The Yellow Wallpaper

The Yellow Wallpaper

تحریر : محمد اشفاق راجا
کارلوٹ پرکنز گِل مین امریکی ریاست کونیکٹی کٹ کے مرکزی شہر ہارٹ فورڈ میں 1860ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد فریڈرک بیچر پرکنز ایک لکھاری تھے مگر انہوں نے بیٹی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد اپنے خاندان کو چھوڑ دیا۔ نوجوان گِل مین کے سامنے ان کی ایک دانشور آنٹی تھیں جس کی پیروی میں اْس نے اپنی زندگی کی ابتدا کی۔ جب گِل مین کی ماں ایک تعلق سے دوسرے تعلق کی طرف بڑھیں اس کی تعلیم کا حرج ہوا۔ 15 سال کی عمر تک وہ صرف چار سال سکول گئیں۔ 1878ء میں گِل مین نے روڈی آئزلینڈ سکول آف ڈیزائننگ سے کمرشل ٹ سیکھا۔ 1884ء میں اس کی شادی چارلس والٹر سٹیٹسن سے ہوئی۔ جو ایک آرٹسٹ تھے، اس کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی اور اس کے بعد وہ ڈیپریشن کا شکار ہو گئی۔ ڈاکٹر سے علاج کر وانے کے دوران کے تجربات اس کی مشہور کہانی ”دی ییلو وال پیپر” کی بنیاد بنے۔ گِل مین کی پہلی شادی ایک دوستانہ طلاق پر ختم ہوئی۔

مضمون نگار، عوامی مقرر گلِ مین امریکہ کی پہلی ایسی شخصیت بن گئیں جنہوں نے تانیثیت پر بات کی۔ ان کا مطالعہ 1898 Women and Economicsء میں شائع ہوا، جو دونوں جنسوں کی گھر سے باہرکام اور محنت کے حوالے سے اہمیت پر زور دیتا ہے۔ کام کالج کی سکیموں پر اس کا تانیثیت کے حوالے سے یوٹوپیائی ناول Herald 1915 میں عورتوں کی ایک ایسی قوم کا فروغ دکھایا ہے جس میں مرد نہیں ہیں۔ 1900ء میں گِل مین کی دوسری شادی ہوئی۔ اس بار زیادہ خوشی کے ساتھ اپنے کزن جورج ہاگٹن گِل مین کے ساتھ۔ اس کی 1934ء میں اچانک موت کے بعد گِل مین کو معلوم ہوا کہ اسے خود پستانوں کو ناکارہ کرنے والا کینسر ہے۔ اپنی آپ بیتی مکمل کرنے کے بعد گِل مین نے کیلی فورنیا میں کلوروفوم کے ساتھ 1935ء میں خودکشی کر لی۔ اگرچہ اہم ناقدین نے گِل مین کے کام کو سراہا مگر اس کی موت کے بعد اس کا فکشن پس منظر میں چلا گیا۔

وسط صدی تک اس پر ہونے والی تنقید اس قدر کم تھی کہ اس کا نام ادبی حوالے کے طور پر کہیں ظاہر نہیں ہوا۔ تاہم 1973ء میں ”دی ییلو وال پیپر” کا نیا ایڈیشن شائع ہوا جس پر ایلائن ہیجز کی رائے درج تھی۔ جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گِل مین کی کہانیاں چھوٹے پیمانے پر تانیثیت کا شہکار ہیں۔ اس دعوے کے نتیجے میں ناقدین نے اس کی توثیق کی۔ ”دی ییلووال پیپر” میں ”گوتھک فکشن” کے عناصر شامل ہیں۔ ایک ویران علاقہ، دارلقامتی کمرے کا ماحول ، ایک الگ تھلگ مگر غالب شوہر۔ یہ پہلو گِل مین کے تانیثی تاثر کو ابھارتے ہیں۔ گِل مین کے نثری اسلوب کی قدر و قیمت خاطر خواہ نہیں ہے۔ پریشان حال، مفارقت، جان بوجھ کر بے ڈھنگا، ذہنی غصہ کی عکاسی کرتا ہے اور راوی کے عدم استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ فکشن کے مقبول میگزین اگرچہ سادہ نثر اور ایڈگرایلن پو کے ناقابل اعتماد رویوں سے برابر حصوں میں اسلوب نقل کرتے ہیں مگر گل مین کا اسلوب، منفرد انداز میں صرف اسی کا خاصہ ہے۔

Story

Story

گل مین اپنی معروف کہانی ”دی ییلو وال پیپر” کے حوالے سے کہتی ہیں ”بہت بڑی تعداد میں قارئین نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ میں نے یہ کہانی کیوں لکھی۔ جب ”دی ییلو وال پیپر” 1891ء میں نیو انگلینڈ میگزین میں پہلی بار شائع ہوئی۔ بوسٹن کے ڈاکٹروں نے اس کے مسودے پر احتجاج کیا۔ ایسی کہانی کو نہیں لکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا اور ان کا ایسا کہنا اس کہانی کو پڑھنے کا محرک بنا”۔ کینساس میں ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ جو میں نے لکھا وہ ابتدائی پاگل پن کی بہترین وضاحت تھی۔ وہ میری معافی کا طلب گار تھا۔ کیا میں تھی؟ اب کہانی کی کہانی یہ ہے کہ سالوں تک میں نے شدید اور مسلسل ذہنی ہیجان میں گزارے ہیں جس سے میں بہت اداس ہو گئی اوراس سے بھی زیادہ کچھ میں نے برداشت کیا۔ اس کیفیت کے تیسرے سال میں ایک معروف متقی ذہنی امراض کے معالج کے پاس گئی۔ لڑکھڑاتی امید کے ساتھ، جس کی شہرت ملک میں سب سے اچھی تھی۔ اس ذہین آدمی نے مجھے بستر پر لٹا دیا اور علاج شروع کر دیا۔

میری اچھی جسمانی حالت کو دیکھ کر اس نے اپنے نتائج مرتب کئے اور کہا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سنجیدہ رائے دیتے ہوئے مجھے گھر بھیج دیا اور کہا ”اپنی گھریلو زندگی میں جب تک ممکن ہے” اور ”دو گھنٹے” اپنی ذہنی زندگی کو دو” اور ”برش، پن، پنسل کو کبھی ہاتھ نہ لگاؤ” جب تک میں زندہ رہوں۔ یہ 1887ء کی بات ہے۔میں گھر آ گئی اور کوئی تین ماہ تک اس کی ہدایات پر عمل کیا اور ذہنی بربادی کے دہانے پر پہنچ گئی اور مجھے بربادی صاف سامنے نظر آ رہی تھی۔ پھر جو باقی ماندہ ذہنی ذہانت کی باقیات تھیں اور ایک دوست کے مشورے سے میں نے اس معالج کی نصیحت کو ہوا میں اڑایا اور اپنے کام کی طرف دوبار آئی اور کسی بھی عام انسان کی طرح کی عام زندگی گزاری۔ کام جس نے مجھے خوشی دی، ترقی اور خدمت کرنے کا موقع دیا۔ جب آپ مشہور ہو رہے ہوں اور آپ کی تعریف کی جائے یقیناً آپ میں ایک طاقت آتی ہے۔ اس فرار سے بچنے کے لئے میں نے ”دی ییلو وال پیپر” لکھا۔

مسودے کو سنوارنے اور کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد اس کی ایک کاپی اس معالج کو بھیج دی جس نے قریب قریب مجھے پاگل قرار دے دیا تھا۔ اس نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اس چھوٹی سی کتاب کو کچھ دماغی امراض کے ماہرین نے اہمیت دی اور ادب میں ایک اچھے نمونے کے طور پر کتاب کو دیکھا گیا۔ یہ میری حوصلہ افزائی تھی جس نے ایک عورت کو بچا لیا۔ اس کے خاندان کو خوفزدہ کر کے انہوں نے موقع دیا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی گزارے اور اس نے یہ کیا۔مگر اس کا بہترین حل میرے لئے اس وقت سامنے آیا جب ایک بہترین معالج نے اپنے ایک دوست کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے جب سے ”دی ییلو وال پیپر” پڑھا ہے۔ اس نے ”ضعیف الاعتقاد” کے علاج کا طریقہ بدل لیا۔ یہ لوگوں کو پاگل پن کی طرف نہیں لے کر جاتا بلکہ لوگوں کو پاگل پن کی طرف جانے سے بچاتا ہے۔

Muhammad Ishfaq Raja

Muhammad Ishfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا