counter easy hit

کیا آپ جانتے ہیں؟

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی

کتنی عجیب بات ہے پاکستان میں اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے ہمیشہ سیاستدان جمہوریت کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں بعینہٰ مذہبی رہنما اسلام کا نام لیتے رہتے ہیں بیشترکی منزل اسلام کی بجائے اسلام آبادہی ہوتی ہے ان حیلہ بازیوں میں ہر حکمران نے قومی اداروں کو جیسے قومی فریضہ جانتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کر دیا اپوزیشن کے پیش ِ نظر بھی فقط اپنے مفادات کا حصول ہے وہ کبھی سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،کبھی سیاسی بلیک میکنگ کے ذریعے اور کبھی مفاہمتی پالیسی کے تحت بہتی گنگا سے نہریں نکالتے رہے۔

اسے عجیب ترہی کہا جا سکتاہے کہ پاکستان میں ہونے والے ہر عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی اس کے نتائج کو ہمیشہ شکست خوردہ سیاستدانوں نے تسلیم کرنے سے انکارکیا ایوب خان سے لیکر میاں نواز شریف کے عہد تک دھونس، دھاندلی، جھرلو اورچمک کی کتنی ہی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں کبھی محترمہ فاطمہ جناح کوہرایا گیا ،کبھی محترمہ بے نظیر بھٹونے انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز بلندکی۔۔۔ کبھی میاں نواز شریف سراپا احتجاج بن گئے۔۔۔ کبھی انہیں اقتدار میں لانے کیلئے iji بنائی گئی اور کبھی مسلم لیگ Q کی حکومت بنانے کیلئے بھرپور ریاستی وسائل استعمال کئے گئے

اب عمران خان واویلا کررہے ہیں کہ انہیں ہرانے کیلئے منظم دھاندلی کی گئی ہے آج اندازہ لگایا جا سکتا ہے عسکری وسول اسٹیبلشمنٹ الزامات کی زدمیں ہے کہ اس نے اپنے منظور ِ نظر سیاستدانوںکو برسرِ اقتدار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔کہا جاتاہے ایک ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف الیکشن کروائے تھے لیکن اس کے نتائج تسلیم ہی نہیں کئے گئے اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے فوجی ایکشن لینا مسئلہ کا حل سمجھ لیا گیا اگر جیتنے والی اکثریتی پارٹی کو اقتداردیدیا جاتا تو شاید پاکستان دو لخت ہی نہ ہوتا جب بھی عقل کے فیصلے جذبات سے کئے جائیں

تو ایسا ہی رزلٹ نکلے گا۔۔۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ1973ء کے متفقہ دستور میں فوجی ڈکٹیٹروں اورجمہوری حکمرانوںنے18ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑکررکھ دیا یہ بات طے ہے کہ آخری دو آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں کی گئیں بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر اثر انداز ہونا تھا تاکہ حسب منشاء حکومتوں کی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی بات ہے تیسری بار وزیراعظم بننا، حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر، الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران حکومتوںکا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟

یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیںحقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے حکمرانوںنے 1973ء کے متفقہ دستور میں تمام ترامیم اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں یہ گیم اب تلک جاری ہے کسی کا مطمع ٔ نظرعوامی بھلائی نہیں اس کے نتیجہ میں حکمرانوںنے دولت کے انبار اکٹھے کرلئے اور عوام روٹی کے لقمے لقمے کو ترس رہے ہیںیہی اس ملک کا سب سے بڑاالمیہ ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ عام آدمی کیلئے سوچ سکے آج ہمارا یہ حال ہے کہ اس قوم کا کوئی لیڈر ہی نہیں ہے حقیقی قیادت سے محروم۔۔۔پاکستانیوںکو ایک ہجوم ِ نابالغاں کہا جا سکتاہے۔۔یہی محرومیاںفوجی ڈکٹیٹروںکی آمدکاسبب بنتی ہیں جب سول قیادت ویژن ،صلاحیت اور ذہانت سے عاری ہو جائے تو ایسے ہی حالات جنم لیتے ہیں

قائد ِ اعظم نے جب پاکستان بنایا تو انہیں بھرپور عوامی تائید حاصل تھی کانگریسی و احراری مولویوں کی لاکھ مخالفتوں کے باوجود پاکستان ایک حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پرابھراجبکہ بعدمیں آنے والے حکمران بتدریج عوامی حمایت اور تائید سے محروم ہوتے چلے گئے اورعسکری وسول اسٹیبلشمنٹ اور شخصیات مضبوط سے مضبوط۔ ادارے کمزور۔۔ یہاں عوام کے ساتھ ایک اور” واردات ” بھی کی گئی اشرافیہ پر مشتمل سیاستدانوں،ب یوروکریسی، ججز،فوجی افسران، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے آپس میںرشتہ داریاں کرلیں۔۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو،حکمران کوئی بھی ہو اشرافیہ کو ۔۔کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا کوئی نہ کوئی عزیز، رشتہ دار یادوست مسلسل حکومت میں رہتاہے۔

۔دعوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں عمران خان اور طاہرالقادری مسلسل کہہ رہے ہیں وہ موروثی سیاست کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں ، تبدیلی ہمارامشن ہے،موجودہ سسٹم بدلیں گے لیکن بغورجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا ان کا اس سلسلہ میں کوئی ہوم ورک نہیں ہے اس وقت ملک کو مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، کرپشن، بیروزگاری اور غربت جیسے جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے بارے میں حکمت ِ عملی بھی واضح نہیں۔۔۔حکمرانوں کو موجودہ سسٹم ہی سپورٹ کرتاہے اسی کی بقاء میں ان کی جان ہے JUI،اے این پی ،پیپلزپارٹی، بیشتر مذہبی جماعتوں اور سابقہ صدر آصف علی زرداری سمیت کئی قومی رہنما موجودہ نظام کو بچانے کیلئے آخری حدتک جا سکتے ہیں

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تین تین بار اقتدارمیں آچکی ہیں لیکن عوام کی حالت پہلے سے بھی ابترہو چکیہے سیاستدان نسل در نسل اقتدار اور وسائل پرقابض چلے آرہے ہیںحکمران خود تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد VIPکے پروٹوکول پرمامورہے یعنی جس ادارے کو عوام کی جان ومال کا تحفظ اورقانون کی حکمرانی کیلئے کام کرنا چاہیے وہ نان پروفیشنل کاموںمیں الجھ کررہ گیا ہے اسی وجہ سے پولیس اپنی ذمہ داریوںمیں ناکام ہوگئی اور امن و امان کیلئے کراچی میں مستقل رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی دھرنوں کے دوران اسلام آباد میں آرٹیکل 245 نافذ کرکے فوج کے حوالے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کیلئے ایسا فیصلہ انتہائی ناعاقبت اندیشانہ کہا جا سکتاہے اب جمہوری حکومت کا فوجی عدالتیں قائم کرنا اس کا سیدھ سادا مطلب یہ بھی ہے

سول انتظامیہ اور جمہوری حکومت ناکام ہوگئی ہے یہ جمہوریت کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پرکیا جارہاہے ان حالات میں اگر شیخ الاسلام یا عمران خان تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ان کی بات دل کو لگتی ہے لیکن تبدیلی کیسے آئے گی یہ توواضح نہیں ۔۔۔ طاہرالقادری نے سیاست نہیں ریاست بچائو کے نعرے کے بعد پر امن جمہوری انقلاب کا سلوگن دیاتھا لیکن وہ مایوس، ناکام اور نامراد ہوکر واپس لوٹ چکے ہیں ۔۔۔عمران خان بھی اپنے مطالبات منوانے کیلئے چیختے چلاتے پھرتے ہیں لیکن کچھ حاصل حصول نہیں ہوا۔۔۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ بیان کافی اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو۔۔۔۔یہ بات اپنی جلہ پر لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ یہ صورت ِ حال جاری رہی تو پاکستان کے حالات تیزی سے خونی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہی مسئلے کا اصل حل ہے

جبکہ ہمارے خیال میں پر امن طریقہ سے تبدیلی آنی چاہیے محاذآرائی،جلائو گھیرائو سے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کا ملک ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس سے خانہ جنگی جیسی کیفیت پیداہونے کااحتمال ہے سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس نے آکٹوپس کی طرح ہرچیزکو جکڑرکھاہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے یہی بنیادی وجہ ہے کہ حکمران سیاست اور جمہوریت کے ساتھ ایک بار میری حکومت دوسری بار تیری حکومت کا کھیل کھیل رہے ہیں

حکمران اب بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے حقیقی اقدامات کریںتو ان کی ساکھ بہترہونے کی امیدکی جا سکتی ہے اپوزیشن کو اس بات کاادراک ہونا چاہیے کہ موجود استحصالی نظام کے خلاف مربوط حکمت ِ عملی اورٹھوس منصوبہ بندی کے بغیربنیادی تبدیلی لائی ہی نہیں جا سکتی اس کیلئے اشرافیہ کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا ورنہ آزادی مارچ اور پر امن جمہوری انقلاب کا نعرہ محض نعرہ ثابت ہوگا عمران خان اور طاہرالقادری کو شاید اندازہ نہیں اشرافیہ کس قدر طاقتور ہے؟ اس لئے غلطی کوئی گنجائش نہیں ہے سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع ہوگیاہے د عوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عملاً کچھ نہ کیا گیا توسب کچھ بے کارہو جائے گا اس لحاظ سے موجودہ سیاسی حالات میاں نواز شریف ہی نہیں۔۔۔ عمران خان،آصف زرداری ۔مولانا فضل الرحمن،محمود اچکزئی، اورطاہرالقادری الطاف حسین کاامتحان ہے دیکھئے کون سرخرو ہوتاہے؟ اور کس کو کتنے نمبر ملتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔کیا آپ جانتے ہیں ؟

تحریر : ایم سرور صدیقی