counter easy hit

ناروے میں عبدالستار ایدھی کی یاد میں ایک تقریب، سفیر پاکستان نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی

Abdul Sattar Edhi-Ceremony in Norway

Abdul Sattar Edhi-Ceremony in Norway

اوسلو (پ۔ر) ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مرحوم مولانا عبدالستار ایدھی کی یاد میں گذشتہ ہفتے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں لوگوں کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔ تقریب کے میزبان ناروے میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر سید ذوالفقار حیدر اور ان کی اہلیہ نیلم سرور انجم تھیں۔ تقریب کی مہمان خصوصی ناروے میں پاکستان کی سفیر محترمہ رفعت مسعود تھیں۔

رفعت مسعود نے کہا کہ عبدالستار ایدھی نے انسانیت کے لیے مادر ٹریساسے بڑھ کرکام کیا۔پاکستان کے لوگ ایدھی کا مشن جاری رکھیں گے۔ ایدھی نے اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کی ہوئی تھی اور یہی طرز عمل پاکستان کے عوام کے لیے مشعل راہ ہے۔

ڈاکٹر نیلم انجم نے ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے لاوارت بچوں کے لیے ایدھی کے جھولابے بی منصوبے کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں بچہ پیدا ہوتے ہی اسے پھینک دیتے ہیں لیکن ایدھی نے ان بچوں کو اپنایا اور سنبھالا۔ پاکستانی معاشرے میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے، معاشرہ انتہاپسندی اورعدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے۔ نومولود بچوں کا قتل کیا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوعات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ کچھ لاوارت بچوں کو ناروے لانے کی اجازت حاصل کر سکیں تا کہ یہاں بے اولاد خاندان انہیں گود لے سکیں۔

تقریب کے میزبان نارویجن پاکستانی شخصیت ڈاکٹر سید ذوالفقار حیدر نے عبدالستار ایدھی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایدھی کو نوبل پرائز ملنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس کے لئے کوشش کریں تاکہ کم از کم عبدالستارایدھی کو مرنے کے بعد یہ ایوارڈ مل سکے۔ وہ ایک سادہ طبعیت کے انسان تھے۔ وہ قیمتی لباس پہن سکتے تھے لیکن انہوں نے سادگی اپنائی تا کہ لوگ بھی سادگی اپنائیں۔اصل چیز ان کا کام تھاجس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک پھر اس سے بڑا پروگرام کروائیں اوراس کے لیے مہم چلائیں گے تاکہ ایدھی کو ایوارڈ مل سکے۔

ڈاکٹر ذوالفقارحیدر اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نیلم انجم نے اپنی شادی کی سالگرہ کے لیے ایک پرتکلف تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا لیکن انھوں نے عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد ان کی سادگی زندگی کی داستان سن کر اس تقریب کو منسوخ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ ایدھی کے لیے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کریں گے۔

تقریب کی کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر ذوالفقار اور ڈاکٹر نیلم نے خود انجام دیئے اور ان کی معاونت نارویجن پاکستانی صحافی عطاء انصاری نے کی۔یہ تقریب اوسلو کے لٹریچر ہاؤس میں منعقد ہوئی۔

ناروے کے دریمن شہر کے ڈپٹی میئر سید یوسف گیلانی نے عبدالستار ایدھی کی زندگی کو سراہتے ہوئے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ ہمارا خواب ہے کہ ہمارا آبائی ملک میں بہتر ہو اور ترقی کرے۔ پاکستان میں ایدھی جیسے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔انھوں نے پاکستان کے شہروں کی ترقی کے لیے جڑواں شہروں کے منصوبوں کی بات کی اور کہا کہ بیرون ممالک کے تجربات سے پاکستان کی حالت بدلی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو مضبوط ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری جڑیں وہاں ہیں اور جب پاکستان میں کوئی مشکل پیدا ہوتی ہے، ہم بھی متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان ایک نیا ملک ہے۔ سترسال ایک ملک کی ترقی اورتحکیم کے لیے کم عرصہ ہے۔ اس ملک نے تعلیم اور دیگر شعبوں میں ترقی کرنی ہے۔ آگے جانا ہے۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی ختم ہونی چاہیے۔

اس موقع پر عطاانصاری کی عبدالستارایدھی پر دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ نارویجن پاکستانی حمزہ علی نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ انھوں نے ایدھی کی سادہ زندگی دیکھ کر اپنے آپ کو بدل لیا ہے۔ ان کا ماضی درست نہیں تھا لیکن وہ اپنے مستقبل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تقریب کے اختتام پر قوالی پیش کی گئی۔

پاکستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان قوال برادران فیاض حسین اور شہباز حسین نے قوالی پیش کی۔ اس موقع پر لوگوں نے ان قوالوں پر کرنسی نوٹ بھی نچھاور کئے جو انھوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے چندے کے طورپر دے دیئے۔قوال برادرران کے پانچ چھ ہزار کراؤن سمیت کل تقریبا 27 ہزار کراؤن چندہ جمع ہوا۔ ان قوالوں کا تعلق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورکے ایک مضافاتی گاؤں ’’بدھوملی‘‘ سے ہے۔ان قوالوں نے علامہ اقبال کا کلام ’’دیارعشق میں اپنا مقام پیدا کر، نیاز مانہ ، نئی صبح و شام پیدا کر۔ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے، خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ پیش کر کے شرکاء سے خوب داد وصول کی۔