counter easy hit

سعودیہ میں یورپی طرز پر این جی اوزکی خواتین کو’مکمل آزادی‘ دلانے کی مہم

ngos-in-saudi-arabia-started-campaign-like-european-countries-to-have-full-freedom-for-females-in-country

ngos-in-saudi-arabia-started-campaign-like-european-countries-to-have-full-freedom-for-females-in-country

ریاض : سعودی عرب میں مرد سرپرستی کا نظام ختم کرنے اور خواتین کو مکمل آزادی دلانے کی مہم شروع ہوگئی اور اس حوالے سے ایک پٹیشن شروع کی گئی جس پر اب تک ہزاروں سعودی شہری دستخط کرچکے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پٹیشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ خواتین کو بھی مردوں کی طرح تمام ’شہری حقوق‘ فراہم کیے جائیں اور ایک عمر طے کی جائے جب عورت کو بالغ اور اپنے اعمال کا ذمہ دار خود سمجھا جائے۔

خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والی عزیزہ الیوسف یونیورسٹی کی ریٹائرڈ پروفیسر ہیں جو اب تک پٹیشن پر 14 ہزار 700 افراد کے دستخط کرانے میں کامیاب ہوچکی ہیں تاہم وہ شاہی عدالت میں یہ پٹیشن جمع نہ کراسکیں اور اب ای میل کے ذریعے بطور درخواست اسے بھیجیں گی۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کے حوالے سے دنیا میں سخت ترین قوانین نافذ ہیں اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں۔گارجین شپ سسٹم کے تحت خاندان کے مرد رکن جو عام طور پر والد، شوہر یا بھائی ہوتے ہیں ان کی جانب سے خواتین کی تعلیم، سفر اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت دینا لازمی ہوتا ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین قیدیوں کی سزا کی مدت ختم ہونے کے بعد رہائی کے لیے بھی ضروری ہے کہ مرد سرپرست اسے آکر لے جائے اور بعض خواتین سزا پوری ہونے کے بعد بھی جیل یا شیلٹر ہوم میں موجود ہیں کیوں کہ ان کے مرد سرپرست انہیں واپس نہیں لے جانا چاہتے۔

سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کی ملازمت کے لیے مرد سرپرست کی اجازت کی شرط ختم کی جاچکی ہے تاہم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی کمپنیاں خواتین کو ملازمت پر رکھنے سے قبل مرد سرپرست کا اجازت نامہ طلب کرتی ہیں جبکہ بعض ہسپتالوں میں بھی علاج شروع کرنے سے قبل مرد سرپرست کا اجازت نامہ مانگا جاتا ہے۔عزیزہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس پٹیشن پر بہت سے مردوں نے بھی دستخط کیے ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ اجازت ناموں پر دستخط کرنا وقت کا ضیاع ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’گارجین شپ سسٹم ایک حکومتی نظام ہے جو 30 سال قبل نافذ کیا گیا اور اس کے خاتمے سے خواتین کے لیے باہر جاکر کام کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا‘۔

واضح رہے کہ اپریل میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے معیشت میں بہتری کے لیے وژن 2030 کا اعلان کیا تھا جس میں مجموعی افرادی قوت میں خواتین کی شرح 2020 تک 23 سے بڑھا کر 28 فیصد تک بڑھانے کی بات کی گئی تھی۔

جدوہ انوسیٹمنٹ فرم کے مطابق گزشتہ برس سعودی خواتین میں بے روزگاری کی شرح 33.8 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور سعودی عرب کے سابق شاہ عبداللہ کے دور میں خواتین کو پہلی بار شوریٰ کونسل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو کابینہ کو مشاورت فراہم کرتی ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں بھی پہلی بار سعودی خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا گیا تھا جس کے بعد 20 خواتین کونسل کی مختلف نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں جبکہ سعودی عرب میں خواتین کی تعداد تقریباً ایک کروڑ کے قریب ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website