counter easy hit

سانحہ کوئٹہ اور بلوچستان سے محبت نامہ

ڈاکٹر محمد صفدر

میرے استاد محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب
السلام علیکم!
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے تاکہ پاکستانیوں کو کٹھن حالات میں آپ کے الفاظ سے حوصلہ ملتارہے ۔ میرا نام راز محمد لونی ہے اور آپ کو یہ خط کوئٹہ سے لکھ رہا ہوں جس کو ابھی حال ہی میں ہمارے دشمنوں نے خون میں نہلادیا ہے۔ کوئٹہ میں ایک زلزلہ1935ء میں آیا تھا جس نے بڑی تباہی مچائی تھی مگر اب یہاں ہر دو مہینے بعد ایک زلزلہ آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس زلزلے سے گھر نہیں گرتے پورے کے پورے گھر انے اجڑتے ہیں۔ سانحہ8اگست کے شہداء کی قبروں سے ابھی تک عطر کی خوشبو آرہی تھی کہ ہمارے دشمنوں نے ایک بار پھر کوئٹہ کو لہولہان کردیا۔ ہمارے دشمنوں اور خون کے خریداروں نے پہلے بھی یہاں بے شمار بے گناہوں کا خون بہایا۔ پہلے ہزارہ کمیونٹی اور پھر پنجابی بھائیوں کو نشانہ بنایا۔اس کے بعد پشتون اور بلوچ بھائیوں کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی کوشش کی، مگر الحمدللہ بلوچستان کے عوام نے دشمن کی کسی بھی چال کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ان واقعات کے پیچھے ہاتھ ایک ہی دشمن کا ہوتا ہے۔ یہ ایسا دشمن ہے کہ پاکستان(خصوصاً بلوچستان) میں اگر بندہ اس کی انگلی پکڑنا چاہے تو یہ پورا ہاتھ پکڑ لے گا اور اگر ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرے تو پورا بدن پکڑ لے گا۔
میرے استاد محترم! ہمارا وہی پیر مغاں دشمن کبھی 1965ءمیں شراب پینے کی غرض سے لاہور پہ حملہ آور ہوتا ہے تو کبھی1971ءمیں مکتی باہنی تراشتا ہے۔ اس کے بدن پر 1947ءمیں جو خنجر چلا تو آج تک اس کے وجود سے خون رس رہا ہے۔’’مسلمان تو ہندو تھے انہوں نے ا پنا مذہب کیوں بدلا؟‘‘1947ءمیں ہندوستان کے بطن سے پاکستان کیوں پیدا ہوا؟، ان دو باتوں کی وجہ سے گاندھی سے لے کر مودی تک ان کے سارے لیڈرانگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کرنے والے دشمن کی سوچ’’انتقام‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ بنگال کے بعد اس کی نظر بد بلوچستان پر ہے۔
میرے استاد محترم! ہمارا دشمن ایک روپے کے لئے ہزار بار قدموں میں گرنے کے لئے مشہور ہے لیکن اس نے یہاں بلوچستان میں تخریب کاری، دہشت گردی، بدامنی اور مکتی باہنی جیسے گروہوں پر بھاری رقم خرچ کی،،مگر افسوس نہ تو بلوچستان میں مکتی باہنی بنی اور نہ ہی شیخ مجیب الرحمٰن پیدا ہوا۔ اب جو اس کے کان میں سی پیک کی بھنک پڑی ہے تو پوری دنیا میں دیوانہ وار پھرتا ہے۔ سی پیک سے پاکستان ترقی کرے گا اور بلوچستان کی تو تقدیر ہی بدل جائے گی، بس تکلیف کی اصل وجہ یہ ہے کہ دشمن کے حلق سے پاکستان اور بلوچستان کی ترقی کا نوالہ نہیں اتررہا۔ دشمن نے بلوچستان میں کلبھوشن بھیجا تاکہ دور دراز علاقوں میں سروں پر پانی لانے والی خواتین کو مشکیزے دے سکے۔
میرے استاد محترم!اب دشمن اپنی اصلیت کے مطابق آخری حربوں پر اتر آیا ہے۔ اس کے وزیر اعظم اور سیکورٹی ایڈوائزر نے صاف کہا تھا کہ ہم سی پیک کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہم پاکستان اور سی پیک کے خلاف داعش سے مل سکتے ہیں۔25اکتوبر کو کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے گرفتار کلبھوشن سے تحقیقات کے بعد اس کے بلوچستان میں تخریب کاری کے منصوبے بے نقاب ہورہے ہیں۔ اب دشمن نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ بلوچستان میں مکتی باہنی فارمولے کی ناکامی کے بعد اب وہ کرایے کے قاتلوں سے آن ملا ہے۔ اب وہ ہمارے ملک میں اس طریقے سے دہشت گردی کرناچاہتا ہے کہ ثبوت بھی نہ ملے اور تباہی بھی زیادہ سے ز یادہ ہو۔ اس طرح ایک طرف ہمارے ملک میں دہشت گردی کرے اور دوسری طرف پاکستان سے متعلق دہشت گرد ملک ہونے کا شور بھی مچائے۔اب وہ دہشت گردی کے اصل ٹھکانے بھی بلوچستان کے قریب لے آیا ہے۔ افغانستان کے چھوٹے چھوٹے گائوں، جہاں بھوک کی وجہ سے جانور بھی بھاگتے ہیں ، اس نے وہاں قونصل خانے کھولے ہیں کیونکہ حامد کرزئی ، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے اس کی دوستی ہے اور محمود غزنوی سے اس کی دشمنی ہے۔ بلوچستان کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کی جو سرحد ملتی ہے وہ’’چھلنی‘‘ ہے۔ اس سرحد سے روزانہ بےشمار کلبھوشن آر پار آتے جاتے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں آپ کو پانچ افغانی’’بغیر دستاویزات کے‘‘ اور ایک پاکستانی ملے گا۔ افغانستان میں موجود ان قونصل خانوں سے پہلے بلوچستان میں کلبھوشن آتے ہیں بعد میں وکیلوں پر خود کش حملہ ہوتا ہے۔ ان قونصل خانوں سے پہلے بلوچستان میں دہشت گرد داخل ہوتے ہیں، بعد میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گرد حملہ ہوتا ہے۔ مزید دہشت گرد حملوں سے بچنے کے لئے ہمیں افغانستان کے ساتھ بارڈ مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ با رڈر کی اس چھلنی سے کوئی بھی کسی بھی وقت داخل ہوسکتا ہے اور کچھ بھی کرسکتا ہے۔
میرے استاد محترم! بلوچستان میں ہماری بہادر افواج، ایف سی پولیس اور دیگر اداروں کے جوانوں نے امن کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ان کی قربانیوں کی وجہ سے بلوچستان میں امن قائم ہوا۔ اس طرح بلوچستان کی حکومت بھی ان دہشت گردوں اور کلبھوشنوں کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے، تاہم امن کے لئے ابھی بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے استاد محترم! سب سے آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بلوچستان کے عوام نے اپنے ملک کے لئے جتنی بڑی قربانی دی ہے اس کی مثال دنیا میں کم ملتی ہے۔ یہ وہ غیرت مند عوام ہیں جنہوں نے غربت اور بہت سے مسائل کے باوجود ازلی دشمن کے منصوبوں پر منوں مٹی ڈال دی ہے۔ سانحہ8اگست ہویا25اکتوبر، بلوچستان کے غیور عوام کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔ میں نے اپنی ا ٓنکھوں سے ہزارہ کمیونٹی کے شہداء کی قبروں پر پاکستان کے جھنڈے دیکھے ہیں، اگر شہداء کا خون ملکی ترقی، خوشحالی، حفاظت اور امن کا معیار ہے تو میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کا معیار بہت بلند ہے۔ اہل بلوچستان بلند و بالا پہاڑوں کے دلیر لوگ ہیں۔ اللہ کی قسم دشمن کی اتنی دہشت گردیوں کے باوجود ان کے چہروں پر خوف کا نشاں تک نہیں۔ ان کے کندھوں پر جنازے ہیں تو لبوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے ہیں۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے اس لئے میرے استاد محترم پاکستان کے دشمنوں تک اہل بلوچستان کا یہ پیغام پہنچادیں کہ بلوچستان بنگال نہیں اور پاکستان 1971ء والا پاکستان نہیں۔ پاکستان ان شاءاللہ قیامت تک قائم رہے گا اور بلوچستان قیامت تک اس کا حصہ رہے گا۔ یہ اہل بلوچستان کا اٹل فیصلہ ہے۔والسلام۔۔آپ کا شاگرد راز محمد لونی

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website