counter easy hit

بساط جیتنے کیلئے نواز شریف کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی

مسلم لیگ نون کے پشاور اور مظفر آباد کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد کی شرکت نے بہت سے ناقددین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ “ووٹ کو عزت دو” اور “مجھے کیوں نکالا “کے بیانیئے کو جس قدر عوامی پزیرائی حاصل ہو رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ پس پشت قوتوں کی توقعات کے برخلاف نواز شریف کا بیانیہ روز بروز عوام میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔

نواز شریف نے گزشتہ کچھ عرصے میں اوپر تلے پانچ مختلف شہروں میں انتہائی بڑے عوامی اجتماعات منعقد کئے ہیں ۔ ” ووٹ کو عزت دو ” اور”مجھے کیوں نکالا” کے نعرے اب پنجاب کے علاوہ بلوچستان خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں بھی بلند ہونے لگے ہیں۔ یہ نعرے ان قوتوں کی سماعت پر انتہائی ناگوار گزرتے ہوں گے جنہوں نے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے نواز شریف کو مائنس کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ جس موثر طریقے سے نواز شریف نے اپنا بیانیہ عوام میں مقبول بنایا ہے، اس کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ نواز شریف کے پشاور اور مظفر آباد کے جلسے گزشتہ چند دہائیوں میں ان علاقوں میں مسلم لیگ نون کے سب سے بڑے عوامی اجتماعات ثابت ہوئے ہیں۔

قرائن بتاتے ہیں کہ سیاسی بساط پر نواز شریف کا پلڑا پھر بھاری ہو چکا ہے اور اگلے عام انتخابات کو جیتنے کیلئے ان کی جماعت فیورٹ ہے۔ سکرپٹ رائٹر نے جو سکرپٹ لکھا تھا اس کا اختتام اب سکرپٹ رائٹر کے ہاتھوں سے پھسلتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی قسم کی صورتحال ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف ساڑھے چار برس پر محیط ملکی تاریخ کی سب سے بڑی پراپیگینڈہ مہم ، دھرنے ،احتجاجی تحریکیں، مذہبی کارڈ اور یہاں تک کہ سیکیورٹی رسک جیسے سنگین الزامات کے باوجود ان کی سیاسی اہمیت اور انتخابی و عوامی مقبولیت کو کوئی خاص گزند نہیں پہنچائی جا سکی۔ یقینی طور پر مائنس نواز شریف کے فارمولے کی خالق پس پشت قوتیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے خاموش نہیں بیٹھیں گی اور نواز شریف کیلئے مستقبل کا سیاسی سفر ہرگز بھی آسان نہیں ہو گا۔ لیکن اب تک اقتدار کی بساط پر نواز شریف اپنے نظر آنے والے اور نظر نہ آنے والے پس پشت حریفوں سے ایک قدم آگے دکھائی دیتے ہیں ۔اس بساط پر چلی جانے والی تمام چالوں کو آج کی تاریخ تک نواز شریف نے ناکام بنایا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا وہ کامیابی اور خوش قسمتی کے اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے پس پشت قوتوں کو زیر کرنے پائیں گے؟ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی غماز نظر آتی ہے کہ پس پشت قوتیں آج تک طاقت کی شطرنج میں کبھی بھی کسی سیاسی رہنما سے زیر نہیں ہونے پائی ہیں۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف اور ان کی جماعت تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے پس پشت قوتوں کو ملکی تاریخ میں پہلی بار شکست سے دوچار کر دیں گے؟ پس پشت قوتوں کے پاس ابھی بھی کئی آزمودہ چالیں موجود ہیں۔ اس وقت ان قوتوں کی نگاہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے کیسزکے نتائج پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔ خواہشات کے مطابق فیصلے حاصل کر کے نہ صرف نواز شریف اور ان کی جماعت کیلئے ایک نیا بحران کھڑا کیا جا سکتا ہے بلکہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات منعقد کروانے کیلئے قائم نگران حکومت کے دورانیے میں ان دونوں کو پابند سلاسل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر ان دونوں شخصیات کے عوامی اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم چلانے سے روکا بھی جا سکتا ہے ۔ نواز شریف اور مریم نواز کے بغیر مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا اثر ان کے ووٹرز پر یقینا منفی پڑ سکتا ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے یا ان پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کرنے کے نتیجے میں پنجاب میں ایک احتجاجی تحریک چکنے کا اندیشہ بھی موجود ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی اس سے بگڑ سکتی ہے۔ اس لیے یہ چال پس پشت قوتوں کو کچھ فائدہ پہنچاتی نہیں دکھائی دیتی۔ پس پشت قوتوں کی دوسری چال یہ ہو سکتی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے نواز شریف کی جماعت سے مضبوط انتخابی امیدوار جنہیں ” الیکٹیبلز” بھی کہا جاتا ہے انہیں توڑ کر حریف سیاسی جماعتوں میں شامل کروایا جائے۔ پس پشت قوتوں نے حال ہی میں بلوچستان میں آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر ایسا کر کے بھی دکھایا ہے۔ لیکن کیا پنجاب میں ایسا کرنا ان قوتوں کیلئے ممکن ہو سکتا ہے؟

بلوچستان میں سرداروں اور نوابوں کو انتخابات جیتنے کیلئے کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، لیکن اس کے برعکس پنجاب میں صورتحال کچھ اور ہے۔ پنجاب میں مضبوط سے مضبوط امیدوار کو بھی اسمبلی کی نشست جیتنے کیلئے کسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ یا خاموش حمایت درکار ہوتی ہے۔ ماضی میں یہ مضبوط امیدوار جنہیں الیکٹیبلز کہا جاتا ہے ہوا کے رخ کو پس پشت قوتوں کی انشا سے مڑتا ہوا دیکھ کر چپ چاپ ان قوتوں کی بتائی ہوئی سیاسی جماعت میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن 2013ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے اس بات کی نفی کر دی کہ ہوا کا رخ صرف اور صرف پس پشت قوتیں ہی تبدیل کر سکتی ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو ان انتخابات میں پس پشت قوتوں کی حمایت حاصل تھی اور بہت سے الیکٹیبلز بھی اسی امید پر عمران خان کی جماعت میں شامل ہو گئے کہ پس پشت قوتوں کے ہاتھ کی بدولت تحریک انصاف اقتدار میں آ جائے گی۔ لیکن ان انتخابات میں توقعات کے برعکس نواز شریف اور ان کی جماعت نے قریب 120 نشستیں جیت لیں جبکہ عمران خان اور ان کی جماعت محض 27 نشستیں حاصل کر پائی۔ یہ پس پشت قوتوں اور الیکٹیبلز دونوں کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھا۔

اگر 2013ء میں تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان اوران کی جماعت کو اس دور کے مصلحت پسند نواز شریف کے مقابلے میں نہ جتوایا جا سکا اور نواز شریف مرکز میں حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور بلوچستان کے صوبوں میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا تو آئندہ عام انتخابات میں ایک مقبول اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئے، اپنی سیاسی تاریخ کی بلند ترین مقبولیت اور ہمدردی کی لہر کے ساتھ نواز شریف کو روایتی انتخابی ہتھکنڈوں کے دم پر شکست دینا تقریباً تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ پنجاب میں موجود الیکٹیبلز یہ حقیقت جانتے ہیں اس لئیے مسلم لیگ نواز سے کسی بھی صورت الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد کو توڑنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ کوئی بھی مضبوط سیاسی امیدوار ہرگز بھی ایسی سیاسی شخصیت یا جماعت کوچھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہویگا جس کے اگلےعام انتخابات جیتنے کے امکانات دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوں ۔

اپوزیشن کے پاس چونکہ نواز شریف پر تنقید کرنے کے علاوہ نہ تو کوئی متبادل بیانیہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بڑے ترقیاتی کاموں یا اصطلاحات کی فہرست ہے۔ اس لیے انتخابات میں اہوزیشن کوئی بھی بڑا اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی۔ شاید پس پشت قوتوں نے ماضی کے برعکس اس دفع غلط مہرے چنے۔ عمران خان کی پشت پر ہاتھ تو رکھا گیا لیکن عمران خان کو سیاست کے اسرار ورموز سے نہ تو کل آشنائی تھی اور نہ ہی آج تک وہ اس فن کو سمجھ پائے ہیں۔ پنجاب فتح کرنےکیلئے ان کی مدد کرنے کیلئے طاہر القادری کو بھی میدان میں اتارا گیا لیکن دونوں مہرے اپنی خود نمائی اور میڈیا ایسکپوژر کے چکر میں پنجاب کے انتخابی محاذ پر گرفت کرنے کے بجائے محض سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں پر پرائم ٹائم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی بھی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ ان دونوں مہروں کی ناکامی کے بعد حال ہی میں آصف علی زرداری کی پشت کو تھپتھتایا گیا ہے لیکن اپنی بیڈ گورننس اور کرپشن کی لاتعداد داستانوں کے بوجھ کے ساتھ وہ بھی پنجاب میں انتخابی محاذ پر کچھ کر دکھانے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان مہروں کی کمزور سیاسی پوزیشن کے باعث نواز شریف کیلئے اگلے عام انتخابات کامیدان مارنا انتہائی آسان ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ پس پشت قوتیں طاقت کی اس شطرنج سے باہر ہو گئی ہیں یا انہوں نے ہار مان لی ہے۔ درحقیقت پس پشت قوتوں کو قومی اسمبلی کی کچھ درجن نشستوں کو مینج کرنا ہے تا کہ اگلے عام انتخابات میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ اگر نواز شریف کی جماعت اگلے عام انتخابات میں محض اکثریتی جماعت بن کر ابھرتی ہے یا سادہ اکثریت حاصل کرتی ہے اور دو تہائی اکثریت نہیں حاصل کرنے پاتی تو پس پشت قوتوں کو مسلم لیگ نواز کی سادہ اکثریت سے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ محض سادہ اکثریت کے دم پر نہ تو نواز شریف اپنی ناہلی کو پارلیمان کے ذریعے ختم کرنے پائیں گےاور نہ ہی وہ آئین کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے پس پشت قوتوں کی سیاسی عمل میں مداخلت کو روک پائیں گے۔

نواز شریف کیلئے جیت کا مطلب صرف سادہ اکثریت نہیں بلکہ مکمل اکثریت حاصل کرنا ہے۔ اگر نواز شریف اور ان کی جماعت خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی اچھی خاصی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے توایسا ہونا ممکن ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ تمام حقائق جانتے بوجھتے پس پشت قوتیں نواز شریف کو مسلم لیگ نواز کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دے دیں گیں؟ یاد رہے کہ قائد محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی پس پشت قوتوں کوانتخابی میدان میں شکست نہیں دے سکی تھیں۔ اگر نواز شریف ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ وطن عزیز کی ایک نئی اور فیصلہ کن سیاسی تاریخ رقم کر جائیں گے۔ یعنی طاقت کی بساط پر اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کو محض انتخابی جیت نہیں بلکہ بھاری مارجن اور نشستوں کے ساتھ ایک بڑی جیت درکار ہے جب کہ پس پشت قوتوں کو محض اس بات کو ممکن بنانا ہے کہ نواز شریف انتخابات میں بھاری اکثریت سے نشستیں نہ جیتنے پائیں۔

پس پشت قوتوں کے پاس بے پناہ وسائل اور اختیارات ہیں یہ کسی کو بھی ہیرو یا ولن کا درجہ دلوا سکتی ہیں اور کسی بھی وقت حکومتوں کی کایا پلٹ سکتی ہیں۔ اس کاچھوٹا سانمونہ حال ہی میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کی حکومت اور اکثریت کے خاتمے کی صورت میں نظرآیا۔ دوسری جانب نواز شریف اس وقت اپنی سیاسی مقبولیت کے بام عروج پر ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے بیانیے کو تسلیم کرتی ہے اس لئیے مقابلہ کڑا بھی ہےاور ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی شخصیت کے پس پشت قوتوں کی تمام تر کوششوں کےباوجود جیتنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس بازی کا سیمی فائنل نواز شریف جیت چکے ہیں ایک مقبول اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیہ اور “ووٹ کو عزت دو ” کے نعروں کی گونج پنجاب سے نکل کر خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر تک جا پہنچی ہے۔ اب سوال فائنل راونڈ کا ہے جہاں نواز شریف کو بساط میں فتح حاصل کرنے کیلئے انتخابات میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ طاقت کی اس بساط پر سوال یہ نہیں ہے کہ اگلے عام انتخابات کون جیتے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اور ان کی جماعت اگلے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں دو تہائ اکثریت حاصل کرنے پائے گے یا نہیں؟