counter easy hit

نواز شریف کو طاہر القادری اور خادم رضوی جیسے کارکن نصیب نہیں ہوئے ، اس لیے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، آج لاہور میں کیا ہونیوالا ہے ؟ صف اول کے تجزیہ کار نے پیشگوئی کر دی

لاہور ; پروفیسر حسن عسکری صاحب مگر اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی نگران وزارتِ اعلیٰ کے منصب کو خوش دلی سے قبول کرنے کے بعد اس عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔ٹھوس ذرائع سے میرے پاس مستند اطلاعات ہیں کہ،

نامور صحافی نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ اپنے دفتر میں جانے کے بعد سے وہ بچوں والی حیرت ومسرت کے ساتھ خلقِ خدا کو کرنے کے طریقوں کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔انقلاب برپا ہونے کے بعد سے دنیا بھر کی اشرافیہ ان دنوں خلقِ خدا کو قابو میں رکھنے کے لئے کے جلووں سے آشنا ہورہی ہے۔ حکمران کے دفتر میں ایک بہت بڑی سکرین لگی ہوتی ہے۔اس کے ’’زیر نگین‘‘ علاقے میں اس سکرین پر مختلف شہروں میں لگے CCTVکیمروں کا Dataبٹن دباتے ہی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب اکثر ایسے بٹن دباتے پائے جارہے ہیں۔Keyboardsکے بٹنوں سے کھیلتے اور Whatsappکی سہولتوں کے ذریعے خلقِ خدا کو قابو میں رکھنے کا عملی مظاہرہ پروفیسر حسن عسکری صاحب میرے اس کالم کے روز بھرپور انداز میں دکھارہے ہوں گے۔ جمعے کی شام نواز شریف نے اپنی دُختر سمیت لاہور ایئرپورٹ اُترنا ہے۔ ان دونوں کو احتساب عدالت نے طویل برسوں کی قیدبامشقت سنارکھی ہے۔ ایئرپورٹ کے Tarmacتک کسی غیر متعلقہ شخص کے پہنچنے کی گنجائش ہی موجود نہیں۔ وہاں نیب والوں کو فراہم کردہ ایک ہیلی کاپٹر بھی موجود ہوگا۔ نواز شریف اور ان کی دُختر کو جہاز سے اترتے ہی اس ہیلی کاپٹر میں بآسانی منتقل کیا جاسکتا ہے۔

نواز شریف کے جہاز میں بیٹھے صحافی ان دونوں کی مگرگرفتاری اور ہیلی کاپٹر تک روانگی والے مناظر دیکھ نہیں پائیں گے۔ نہ ہی ان کی مناسب ریکارڈنگ ممکن ہے۔نواز شریف اور ان کی دختر کو بٹھاکر ہیلی کاپٹر لاہور سے روانہ ہوگیا تو ہر صورت رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوجائے گا۔انگریزی دور کے تھانے داروں کی طرح خود کو جدید ذہن والا کہلوانے کے شوقین پروفیسر حسن عسکری مگر اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ شہرِ لاہور کو کنٹینروں کے ذریعے جمعہ کی صبح ہی سے Sealکردیا جائے تاکہ نواز شریف کے حامیوںکی مؤثر تعداد ایئرپورٹ تک نہ پہنچ پائے۔ Cut Pasteکے کمالات کے ذریعے پروفیسر ہوئے اس شخص کو اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ سڑکوں پر لگے کنٹینر حکمرانوں کی پریشانی اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی طاقت کو نہیں۔کئی صورتوں میں یہ اصل مقصد بھی حاصل نہیں کر پاتے۔مسلم لیگ نون کے پاس وہ ورکرہی موجود نہیں جو طاہر القادری یا علامہ خادم حسین رضوی صاحب کو نصیب ہوئے ہیں۔ نواز شریف صاحب کولاہور ایئرپورٹ سے اٹھاکر کہیں اور لے جانے کے بعد ان کے کارکنوں کی اکثریت تھوڑی نعرے بازی کے بعد منتشر ہوجائے گی۔ ان کارکنوں کو لاہور لانے والے رہ نمائوں کی اکثریت کے ذہن پر 25 جولائی 2018سوار ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ یہ لوگ جنہوں نے انتخابات کے دن ان کا پولنگ ایجنٹ بننا ہے یا ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لے کر آنا ہے ’’پلس مقابلوں‘‘ میں زخمی ہوکر حوالاتوں میں بند ہوجائیں۔ پروفیسر صاحب کو ’’نواب آف کالاباغ‘‘ والی پھنے خانی دکھانے کی ضرورت نہیں۔ قوم 2018میں داخل ہوچکی ہے۔ پروفیسر صاحب بھی اس عہد میں داخل ہوہی جائیں ۔ خواہ مخواہ کے تماشے لگانے کی کوشش نہ کریں۔