counter easy hit

قومی ایئر لائن تباہی کا ذمہ دار کون

PIA

PIA

تحریر : علینہ ملک
گئے دنوں کی بات ہے جب پی آئی اے کو سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ وہ سنہری دور تھا جبب ایئر لائن دن رات منافع کما رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ شاہی خزانوں کے منہ بھی ادارے کے لئے کھلے ہوئے تھے ، لوگ قومی ایئر لائن سے منسلک ہونے کوباعث فخر سمجھتے تھے ،چنانچہ کئی اسے لوگ تھے جن کے پورے پورے خاندان چچا ،ماموں ،تایا ،پھوپھے ،کزن ،بہنوئی ،باپ ،بیٹے،بیٹیاں سب یہاں کسی نہ کسی پوسٹ پہ ملازم تھے،یعنی پوری نسلیں دادا سے پوتے تک یہاں نوکری کے مزے لوٹ رہے تھے ،چندفیصد لوگ ہی ایسے ہونگے جن کا دور دورتک کوئی جاننے والا نہ ہو ۔سفارشی بھر تیوں کا سلسلہ بھی یہاں دن دوگنی رات چوگنی ترقی پہ تھا ،اس زمانے میں بہت سے ایسے لوگ بھی نظر سے گزرے جن کے نکمے اور نکھٹو برخودار جو میٹرک تک فیل ہوتے وہ اس قو می ایئر لائن کا حصہ با آسانی بن جاتے ،اور پھر پیپلز پارٹی اور سندھیوں کی اجارہ داری کسی سے ڈھکی چھپی بات نہ تھی ۔غرض سرکاری کھاتے سے بہنے والی گنگا میں ہاتھ دھونے کا عمل جاری و ساری تھا۔

جہازوں کی مد میں منگوایا جانے والا سامان اور پر زا جات کی خرد برد بھی چلتی رہتی ۔پی آئی اے فلائٹ کچن کے لئے آنے والا آدھا سامان ملازمین کے گھروں میں روزانہ کی بنیا دوں پر موجود ہوتا ،خاص کر وہ جو فلائٹ کچن سے منسلک تھے وہ یہ سامان اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں بھی شوق سے بانٹتے ،میں اکژیہ سوچتی کہ فلائٹس کے لئے کتنا اضافی سامان منگوایا جاتا ہے جو اتنے لوگ مفت میں فائدہ اٹھاتے ہیں ،اسی طرح کے کم و بیش حالات پاکستان کے دوسرے سرکاری اداروں کے بھی ہیں ۔یہی وجہ ہے جن اداروں میں چیک این بیلنس کا نظام قائم نہ ہوسکے ان پر برا وقت آنے میں دیر نہیں لگتی چنانچہ آئستہ آئستہ پی آی اے خسارے کی طرف جانے لگی تو ایک وقت وہ بھی آیا کے لوگوں نے گولڈن ہینڈ شیک لینے میں عافیت جانی ،اور بہت سے لوگوں نے یہ تک کہا کہ پی آئی اے اب کسی کام کی نہیں اور نہ ہم اپنے بچوں کو یہاں آنے دیں گے۔مگر افسوس کسی نے یہ نہ سوچاکہ اس خسارے کا اصل زمدار کون ہے۔

حکومتیں بدلتی رہی اور قومی ایئر لائن مزید زبو حالی کی طرف گامزن ہوتی چلی گئی ،پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ آتی تو ادارے کو سرکاری خزانے سے خوب نوازا جاتا اور سیاسی بھرتیا ں بھی خوب کی جاتیں اور جب ن لیگ بر سر اقتدارآتی تو نجکاری کا شور مچ جاتا ۔اور کیونکہ ادارے میں بھرتی آدھے سے زیادہ ملازمین سفارشی ہیں لہذا نجکاری کے خلاف کھڑے ہوجاتے چنانچہ معا ملاجوں کا توں رہا اور قومی ایئرلائن نقصان پہ نقصان اٹھاتی چلی گئی ۔کسی نے ملک کے مفاد کو آج تک سوچا نہیں بس ہر شخص اپنا نفع نقصان سوچتا ہے۔

ایک چیز جس کا افسوس ساری زندگی سے ہے کہ بحیثیت مسلمان جس قوم کو ایماندار ، دیانتدار اور مخلص ہونا چاہیے ،اسی قوم میں بے ایمانی اور بددیانتی کا عنصر وافر مقدار میں موجود ہے ۔ہم اپنی ذات کے نفع کو سب سے پہلے سوچتے ہیں چاہے ملک کو کس قدر نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔ نجکاری نہ تو کوئی برا عمل ہے اور نہ ہی اس سے ملازمین کو کسی بھی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں کو منافع بخش بنانے اور نقصان سے بچانے کے لئے نجکاری کے عمل سے گزارا جاتا ہے ۔مگر افسوس کے پاکستان کی عوام میں شعور کی بھی کمی ہے اور کچھ بھٹکانے والے بھی زیادہ ہیں ۔جس کی وجہ سے کئی سرکاری ادارے ایسے ہیں جن کاماہانہ خسارہ سرکاری خزانے پر بوجھ بنتا جارہا ہے ۔اسٹیل مل کی مثال سب کے سامنے ہے۔

سرکاری اداروں میں اضافی ملازمین کا بوجھ بھی ان اداروں کو سالانہ نہیں بلکہ ماہانہ بنیادوں پر خسارے سے دوچار کر رہا ہے ۔اکثر تو یہ بھی دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ایک سرکاری ادارے سے منسلک افراد سال کی چھٹی پر دوسرے ملکوں کی سیاحت پر نکل جاتے اور اس طرح ایک پوسٹ پر ادارہ دو لوگوں کا خرچ اٹھاتا ہے ایک وہ جو چھٹی پہ ہے اور دوسرا وہ جو اس کی جگہ کام پر ہے ۔پھر جب ادارہ بدحالی سے دوچار ہوتا ہے تو ہم لوگ با آسانی سارا ملبہ گورنمنٹ پر ڈال دیتے ہیں کہ وہی کرپٹ ہے اور وہ ہی اس ملک کو لوٹ کے کھا رہے ہیں۔

ارے کرپشن تو نیچے کی سطح سے شروع ہو رہی ہے ،جب ہم سب خود کرپٹ ہیں تو اللہ نے ہم پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے ہیں جب تک ہم خود اپنے کام کے ساتھ دیانتدار نہیں بنے گے تب تک یہ دن اور یہ حالات ہمیں دیکھنے کو ملتے رہیں گے ۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ہم ملکی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیں گے ،اپنے اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے اسے اپنی محنت اور لگن دیں گے نہ کے اسے لوٹ کر کھائیں گے۔

تحریر : علینہ ملک