counter easy hit

مصطفی کمال کے آنسو

Mustafa Kamal

Mustafa Kamal

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ایم کیو ایم اُس تعصب کے خلاف بنائی گئی تھی جو سندھ اور کراچی میں بسنے والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والےلوگوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہاتھا۔جس کی ابتداءقیام پاکستان کے سات ہی سال بعد کر دی گئی تھی۔جسکا سرخیل ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان تھا۔جس کایہ بیان مہاجرین کے خلاف آن ریکارڈ بھی موجود ہے۔کہ”مہاجر ہندوستان سے تو ہیاں آگئے ہیں اس کے بعد ان کے لئے(بحرِ۔عرب) سمندر ہے”پھر یہ ہی نہیں بلکہ اس ڈکٹیٹر جنرل نے اُن بیورو کریٹس کو جو اپنی جمی جمائی ملازمتوں کو چھوڑ کر وطنِ عزیز کی خدمت کےلئے پاکستان آ گئے تھے کیوں کہ اس وقت حکومت کو چلا نے کے لئے موجودہ پاکستان میں اس کیلیبر کے لوگ دستیاب ہی نہ تھے۔ایوب خان نے آتے ہی ان میں سے بہت بڑی تعداد کو ملازمتوں سے بغیر وجہ بتائے فارغ کر دیا۔یہ لوگ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے اپنی ملازمتوں کو خیر باد کہہ کر آئے تھے۔

اس اقتدار کے بھوکے نے اس پر ہی بس نہیں کیامیرے قائد اعظم کا بنایا ہوا دارالحکومت بھی اٹھا کر جی ایچ کیو کے سائے لے جاکر اسلام ۤباد کے نام سے ایکنیا شہربنا دیا۔ان مہاجرین پرپاکستان میں رپہلے سے مقیم افراد کا کوئی احسان نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی پر بوجھ بنے۔ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ ذہانت لوگ اور یکتہِ روزگار اور بہترین ہُنر مند لوگ شامل تھے۔ ایوب خان کے زوال کے بعد ذوالفقار علی بھٹونے رہی سہی کسر پوری کردی اور مہاجرین بیوکریٹ کی ایک بہت بڑی تعداد کویک مرتبہ پھر فاغ کر دیا گیا۔یہ وہ ہی شخص ہے جو اپنے آپ ایوب کا بیٹا کہلوانے میں فخر محسوس کرتا تھا۔

اس دور میں 750،اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری ملا زمین کامعاشی قتل کیا گیااس کے بعد لسانیت کا بیج بو کر سندھ میں سندھی مہاجر کا مسئلہ پیدا کر کےنفرتوں کا بیج بودیا گیا۔۔اور نا اہلوں کو بڑے بڑے عہدے سونپ دیئے گئے۔اس کے ساتھ ہی مہاجرین پر دس سال کے لئے کوٹہ سسٹم نافذ کر کے ان کا مکمل معاشی قتلِ عام کیا جاتا رہا۔ جس کو آج 46،سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔پھر اس پر ہی بس نہیں کیا گیا۔چو پایئوں میں رہنے والے اور نسوار کھانے والا بھی مہاجر کو دیکھ کر مختلف نام دے دے کر ذلیل کرتے رہے کہیں بھی ان مائگریٹیز کی عزت نفس محفوظ نہ تھی۔اردو بولنے والے اپنے تعلیم یافتہ ماحول کی وجہ سے لڑنے جھگڑنے سے کتراتے تھے جس کے نتیجے سندھ سے باہر سے ہر آنے والا انہیں دھدکارتا کوئی تلیئر،کوئی مکڑ،کوئی بھیااور نہ جانے انہیں کن کن القابات سے پکارتا۔مگر پھر بھییہلوگ کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے۔

جب اردو بولنے والوں کے خلاف تعصب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اوران کی بستیوں کی بستیاں آگ اور خون میں نہلا دیگیئں تو کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء میں اپنی عزتِ نفس کا احساس پیدا ہواتو اس کے نتیجے میں الطاف حسین اور ان کے چند ساتھیوں نے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھدی تو ہر اردو بولنے والا اس کو اپنی آواز سمجھتے ہوے اس کی جانب راغب ہوا مگر اسکی لیڈر شپ نے طاقت حاصل کر لینے کے بعد اپنے ہی لوگوں کی گردنیں کاٹنا سروع کردیں۔جس عام مہاجر کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔اور جب ایجنسیز کی انولمنٹ ہوئی تو اردو بولنے والوں کو مزید نقصانات اور لاشیں ااٹھان پڑ گیئں اور حقیقی میر جعفروں نے ایک مرتبہ پھر جنم لے لیا جو آج بھی راندے درگاہ پھر رہے ہیں۔

جب حالات نے کروٹ بدلی تو مہا جر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی مومنٹ کا چولا پہنا دیا گیا۔مگر اس پورے 30 سالہ دور میں اردو بولنے والا روز بروز تباہی کے گڑھے کی طرف ہی دھکیلا جاتا رہا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم نے اردو بولنے والوں کو کس قدر حقوق دلائے؟ حد تو یہ تھی کہ مہاجر بچوں سے قلم و قرطاس چھین کر ان کے نرم و نازک ہاتھوں میں بھاری بھرکم اسلحہ پکڑا دیا۔،کوئی گریبر بنا تو کسی کو اسنیچر بنا دیا کوئی ڈکیت بنا تو کسی کو بھتہ مافیہ بنا دیا ۔کہاں گئی وہ مہاجروں کی تعلیم؟ کہاں گیا وہ ان کا تہذیبی تشخُص؟ہر چیز ملیا میٹ کردی گئی۔کسی کو الطاف حسین کے سامنے گردن اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔جو بولتا تھا اُس کو تول دیا جاتا تھا اوراُس کے لئے دعاکرائی جاتی تھی۔مجھ سمیت بڑے سے بڑے لکھاری کو اس طرح کھل کر لکھنے کی جرا ءت نہ تھی۔

ان کے دور میں سندھ کے اکثر اہم سرکاری اداروں میں اردو اسپیکنگ کا داخلہ منسوخ کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سندھ سیکریٹریٹ میں جہاں کبھی اردو بولنے والے ہی ہوا کرتے تھے ۔آج بھائیوں کی مہربانی کی وجہ سے کوئی ایک بھی اردو بولنے والا نہیں جس طرح کراچی میں نیوی کی زبان پنجابی ہے اسی طرح یہاں کے سیکریٹریٹ کی زبان سندھی ہے۔کوئی اگر مجھ جیسا وہان اردو میں بات کرتا ہے تو لوگ اُس کی شکل حیرت سے دیکھتے ہیں۔یہ سب نوازشیں ایم کیو ام کے پیدا ہونے کے پندرہ سال کے اندر اردو بولنے والوں کےلئے پیدا کردی گیئں۔ایم کیو ایم نے اپنے حلف برداروں کو جو ملازمتیں دلوائیں وہ کے ایم سی،اور واٹر بورڈ کی ملازمتیں تھیں جہان کام کرنا ہی نہیں پڑتا ہے اس کے علاوہ جن سرکاری اداروں میں ان کے حلف بردار لگائے گئے وہاں حاضری رجسٹر کے خانے میں اُن کے متعلق لکھا ہوتا ہے سیکٹر ڈیوٹی اور موصوف وہان سے غا ئب ہوتے ہیں۔اس کیفیت میں اردو بولنے والوں کے علاقوں حیدر آباد سکھر اور کراچی کا حشر کس سے چُھپا ہے۔

اب آتے ہیں مصطفیٰ کمال کے آنسووں کی طرف۔۔یہ سارا پاکستان جانتا ہے کہ مصطفیٰ کمال کس کیلیبر کا انسان ہے۔جن کی تعریف دوست دشمن سب نے کی ہے اور جو متحدہ قومی موومنٹ میں الطاف حسین کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت کے حامل تھے۔جس پر کرپشن کا کہیں سے بھی الزم نہیں لگا۔ان کو نیچا دکھانے کی غرض سے لندن اور کراچی کے تمام ہی ایمکیو ایم کے رہنمائوں کی کوشش کے باوجود کوئی الزام نہیں لگا سکے۔ جبکہ وہ بار بار الطاف حسین کے” را” سے تعلقات کا ذکر کرتے رہے۔مہاجروں کی بد حالی اور ان کو دہشت گردی میں ملوث کرنے اور ان کے تعلیمی نظام سے دوری اور اخلاقی گراوٹ پر وہ کئی مرتبہ آب دیدہ بھی ہوے۔اپنیہنگامی پریس کانفرنس میں متحدہ کی پوری لیڈر شپ اُن پر کوئی ایک الزام بھی نہ لگا سکی۔

سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال 3مارچ 2016 کوبروز جمعرات کراچی میں اچانک میڈیا پر نمودار ہوےاور ایک بھر پور پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور ایم کیو ایم سے اپنی باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرتے ہوے ایم کیو ایم کے قائد پر “ر” کایجنٹ ہونے کا الزام بڑے اطمنان کے ساتھ لگاتے ہوے اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے ضمیر کے خلاف تھا۔جس کو ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔الطاف حسین کو اس وقت کراچی میں 8/10 ہزار لاشیں چاہیئں۔ان کی خاطر اردو بولنے والوں کی دو نسلیں کٹ گیئں۔لیکن ان کا کوئی مقصد واضح نہیں ہے۔الطاف حسین کی وجہ سے محبِ وطن لوگ “را”کے ایجنٹ اور دہشت گرد کہلا نے لگے اچھے خاندانی لڑکو کو بین الاقوامی دہشت گرد بنا دیا گیاتعلیم ہمارا زیور تھا30 سالوں میں ساری قوم کو جاہل بنا دیا۔ملک دشمنی کے حوالے سے ایم کیو ایم اور اس کے قائد یہ الزامات ایک مدت سے لگ رہے ہیں مگر ہمارے حکمران کانوں میں روئی اور آنکھوں پر پٹیاں باندھے بیٹھے ہیں۔

مصطفیٰ کمال کا ہمت باندھ کرسامنے آنا اس بات کا غماز ہے کہ اب پاکستان کے لوگ ایم کیو ایم کی دہشت گردی سے خائف نہیں ہیں۔اب قوم کا خوف بڑی حد تک اس کےخاتمے کی نوید دے رہا ہے۔لوگوں مُصطفیٰ کمال کے آنسووں پر نظر رکھ کر اپنا مستقبل کا لائحہِ عمل ترتیب دے کر مہاجر نوجوانوں کو سیاسی دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانی ہوگی۔ماضی میں جو کچھ ہوا اُس سے بچتے ہوے اپنے احساسِ کمتری و احساسِ محرومی کے خاتمے کے لئے عملی کام کرنے ہوںگے۔اپنے بزرگوں کی تہذیب و تربیت کی جانب ہمیں پھر سےرجوع کرنا ہوگا اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی ہر صورت لاج رکھنا ہوگی۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com