counter easy hit

من ترکی ومن ترکی نہ می دانم

Muslims

Muslims

تحریر : سجاد علی شاکر
مسلمان تہذیب کی اپنی ایک پہچان ہے اپنا ایک مقام ہے برصغیر پاک و ہند ایک وسیع و عریض خطہ ارض ہے اور یہاں مختلف اوقات میں مختلف اقوام مختلف زبانوں کے ساتھ وارد ہوتے رہے۔ شاید زبانیں بھی آپس میں خلط ملط ہوتی رہیں لیکن کسی نئی بڑی زبان کے جنم لینے کے شواہد اردو سے پہلے نہیں ملتے ہیں یعنی ہر زبان اپنی انفرادی حیثیت میں ہی چلتی رہی۔ ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اور ہمارے دین اسلام نے ہمیں علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے اور تعلیم کا حصول مسلمانوں کے لیئے مذہبی فریضے سے کم نہیں ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے وطن عزیز کے نونہالوں کو علم سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ علم ایک ایسی قوت اور دولت ہے جسے نہ کوئی چوری کر سکتا ہے اور نہ دھوکہ دہی سے چھین سکتا ہے۔ علم کو جتنا خرچ کیا جائے یہ اتنا زیادہ برھتا ہے۔ یہ علم ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان ارتقاء کی منزلوں کو عبور کرتا ہوا موجودہ ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا ہے۔ علم ہی کی بدولت انسان نے سطح زمین پر بالا دستی حاصل کی ہے بلکہ زمین کا سینہ پھاڑ کر قیمتی معدنیات تک بھی رسائی حاصل کرتے ہوئے خلاء کو بھی تسخیر کر لیا ہے۔زبان کسی بھی انسان کے دوسرے انسان سے رابطے اور تعلق کا ایک ذریعہ ہے اور ہم زباں ہو نا اس کام کو سہل اور آسان بنا دیتا ہے۔

زبان نہ صرف رابطے کا ذریعہ بلکہ قوموں کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ جب پہلے پہل مسلمان یہاں آئے تو اپنے ساتھ عربی زبان اور بول چال لے کر آئے جس نے مقامی زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کئے پھر افغان ، ترک فارسی اور جو جو فاتح یہاں آتے گئے اور اپنی اپنی زبانیں لا تے گئے تھیں تو بذات خود بھی یہ بڑی زبانیں اپنا وجود برقرار رکھتی رہیں لیکن اِن کو سمجھنے والے خود انہی اقوام تک محدود رہے اور دوسری اقوام اور مقامی باشندوں تک اپنی بات پہنچانا ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہ تھا اور یوں اپنی اپنی زبان میں ایک دوسرے سے بات کرتے کرتے ایک ایسی زبان وجود میں آگئی جس نے اردو کا نام پایا جو سب کے لیے قابل فہم تھی۔ یہ تو ایک الگ مو ضوع ہے کہ یہ زبان ارتقائی مراحل سے کیسے گزری لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ایک موثر اور مقبول ترین ذریعہ رہی۔ پاکستان بنا تو اسے پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا اور ایک بار پھر یہ پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری اور مختلف علاقائی زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کا فریضہ سرانجام دیتی رہی۔

اس کے اندر مختلف زبانیں جذب کرنے کی صلاحیت نے اس کے دامن کو مالامال کیے رکھا اور بہت کم الفاظ ایسے ہیں جو اردو میں بولے جائیں تومس فٹ محسوس ہوتے ہیں ورنہ تو ہر لفظ اس میں یوں مدغم ہو جاتا ہے جیسے یہ اردو کا ہی ایک لفظ ہو، یوں اردو ایک زیادہ وسیع زبان بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اگر چہ عوامی سطح پر اس سے محبت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باوجود قومی زبان کا درجہ دینے کے ہم نے سر کاری سطح پر اس سے وہ سلوک نہیں کیا جس کی یہ حقدار ہے۔ زبانی کلامی تو ہم اسے قومی اور سرکاری زبان کہتے ہیں لیکن عملا ہم اسے وہ درجہ نہیں دیتے اور جہاں فوقیت اور اہمیت اس کا حق بنتا ہے وہاں بھی اس کو درجہ دوم کی زبان سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے

صدر، وزیراعظم یا کسی بھی دوسری اہم شخصیت کے حلف کو ہی لیجئے اس تقریب اور دستاویز کو ہر پاکستانی کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے کیونکہ ایک پی ایچ ڈی پروفیسر، ڈاکٹر ، انجئنیر جنرل ، جج یا گھریلو خاتون سے لے کر ایک ریڑھی والے سبزی فروش، دیہاڑی کرنے والے مزدور اور ڈرائیور غرض ہر ایک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ جسے اس نے اپنا حکمران منتخب کیا ہے وہ قسم اٹھا کر قوم سے کیا وعدہ کر رہا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ وعدہ ایک ایسی زبان میں کیا جاتا ہے جسے پاکستان کی ایک معمولی سی اقلیت ہی سمجھ سکتی ہے یعنی زبان من ترکی ومن ترکی نہ می دانم۔ جس ملک میں خواندگی کی شرح ہی پچاس فیصد سے کم ہے وہاں انگریزی سمجھنے کی حد تک پڑھے لکھے لوگوں کی کیا تعداد ہوگی اور ویسے بھی ایک قومی فریضے کی ادائیگی کے لیے قومی زبان زیادہ موزوں اور حقدار ہے،

لیکن ہوتا یہ ہے کہ یہاں قومی دنوں پر انگریزی لباس پہن کر انگریزی زبان بولنے پر نہ صرف فخر محسوس کیا جاتا ہے بلکہ ایک طبقہ ایسانہ کرنے والوں کو جاہل سمجھتا ہے جس کا اکثر اوقات اظہار بھی کر دیا جاتا ہے۔ الیکشن کے دوران پاکستانیت کے بے شمار دعووں کے باوجود بھی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کو اردو میں منعقد کرنے کی نہ ضرورت محسوس کی گئی نہ جرات کی گئی۔صرف یہی نہیں بلکہ اکثر اوقات سرکاری تقریبات میں حکومتی شخصیات کو تضحیک کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے لیکن پھر بھی اردو کی بجائے انگریزی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سرکاری اور تعلیمی دونوں سطح پر اردو کو نظر انداز کردینا قابل افسوس ہے۔ یہ نہیں کہ انگریزی کو اہمیت نہ دی جائے،اسے بولا نہ جائے یا اسے نصاب تعلیم میں سے خارج کر دیا جائے یا جدید مضامین کو انگریزی میں نہ پڑھایا جائے یا انگریزی سکولوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔اس موضوع پر مختلف مکتبہ ہائے فکر کے مختلف خیالات ہیں وزن دونوں طرف برابرہی ہے اگر ایک طرف قومی زبان کی آسانی ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی زبان میں تحقیق کی آسان فہمی ہے

بین الاقوامی طور پر موثر اور مستند رابطوں کی صحت بھی ہے لیکن آج کسی بھی اچھے یا عام نجی تعلیمی ادارے میں اردو کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے یہ زبان کم از کم اس ہتک کی بھی سزاوار نہیں میں خود پاکستان کے بہتریں نجی تعلیمی سسٹمز کے اداروں میں پڑھ چکا ہوں اور پڑھ رہا ہوں جہاں انگریزی کو اردو سے کہیں زیادہ پیریڈ دے دئیے جاتے ہیں اور اہمیت بھی اور پھر ہم سوال بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ آج کے بچوں کو اردو کیوں مشکل لگ رہی ہے جبکہ اگر اردو کو بطور مضمون بھی درست طریقے سے پڑھا دیا جائے تو ہمیں اپنے سوال کا جواب مل سکتا ہے۔میری تو یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں ہدایت دے کہ وہ ہماری وراثت کو اسکا پورا حق دیں۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir|@gmail.com
03226490480