counter easy hit

مروٹ میں کسانوں پر تشدد اور جمشید دستی کا عزم

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر: سید مبارک علی شمسی
ہمارے ملک کی آبادی کی واضع اکثریت دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ 1981 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا ساڑھے اٹھائیس فیصد حصہ شہروں میں اور ساڑھے اکہتر فیصد حصہ دیہاتوں میں آباد ہے۔ دیہاتوں میں زندگی گزارنے والے لوگوں کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔ ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ چور پر زراعت سے منسلک ہے۔ زراعت پر کام کرنیوالی آبادی کا تناسب تقریبا 39 فیصد ہے۔ جبکہ زراعت کے شعبہ پر تقریبا 79 فیصد آبادی کی روزی روٹی کا دارومدار ہے ، کیونکہ پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے وسیع و عریض اور زرخیز میدان ہیں اور صحرائے چولستان اس کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگاتے ہیں۔

دریائے سندھ کے بالائی اور زیریں میدانوں کو شمار دنیا کے ذرخیز ترین علاقوں میں ہوتا ہے یہ علاقے اپنی ذرخیزی کی بدولت قدیم زمانے سے انسانی تہذیب و تمدن کا مرکز رہے ہیں۔ اور ان میں ہر طرح کی فصلیں ، پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ فصل پکانے کے لیئے پانی بہت اہم ہوتا ہے۔ اور پاکستان کے کل کاشت شدہ رقبے کے 70 فیصد کا انحصار آبپاشی پر ہے اورآبپاشی کا سب سے اہم ذریعہ نہریں ہیں۔ جن کے ذریعے آبپاشی پر درومدار رکھنے والے علاقے کا 70 فیصد علاقہ سیراب ہوتا ہے۔ باقی 30فیصد رقبے پر ٹیوب ویل اور تالابوں وغیرہ کے ذریعے آبپاشی کی جاتی ہے۔ پاکستان کی زرعی پیداوار کا دارومدار ذرائع آبپاشی اور توسیع پر ہے پاکستان کے ایسے میدانی علاقے جہاں زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہے۔ وہاں پرانے وقتوں میں کنوئوں سے رہٹ کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا۔ جس سے محدود پیمانے پر زیر کاشت رقبے کو سیراب کیا جاتا تھا۔

مگر آجکل کے جدید دور میں جن علاقوں میں نہری پانی نہیں پہنچتا اور وہاں زیرزمین پانی کی سطح نیچی ہے اس مقام پر بجلی سے چلنے والے انجنوں(ٹربائنوں) یا ڈیزل انجنوں کے ذریعے پانی حاصل کیا جا تا ہے۔ انہیں ٹیوب ویل کہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں واقع سحڑائے چولستان جو کہ مشابہت میں تھر سے ملتا جلتا ہے۔ جہاں تاحد نظر ریت کے ٹیلے اور بے آب و گیا ہ جھاڑیوں کے درخت اپنی تشنہ بی اورمحرومیوں پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ اور یہاں پر قدرت اپنی بھر پور قہرمانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ڈویژن بہاولپور کے آخری ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس کا قدیمی اور تاریخی قصبہ مروٹ جو کہ صحرائے چولستان کے دہانے پر واقع ہے اور یہاں سے بھارت کی سرحد چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسے عرف عام میں روہی بھی کہتے ہیں۔

مروٹ کے درمیان سے گزرنے والی ہاکڑانہر بھی یہاں کے کسانوں کی اراضی کو سیراب نہیں کر پاتی ، بس اس سے چند چکوک ہی مستفید ہوتے ہیں۔ جو کہ اس کے کنارے پر واقع ہیں۔ اور خاص طور پر جو وزیر وں ، مشیروں اور جاگیرداروں کے چیلے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بااثر افراد اپنی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر اپنی مرضی سے نہر کھلواتے اور بند کرواتے ہیں۔ جسکی وجہ سے اس کا پانی صرف اور صرف بااثر اور سیاسی اثر رسوخ رکھنے والوں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیئے مختص ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے غریب کسانوں کو تو اپنی باری پر بھی پانی نصیب نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی بھولے سے یہ غلطی کر بیٹھے تو کرپٹ اور راشی ایکسیئن انہار اور ایس ڈی اوز اس کے خلاف تاریں بھجوا بھجوا کر اسکی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اور پانی چوری کا جرم لگا کر جھوٹے مقدمات درج کروا دتے ہیں۔ غریب کسان اس زحمت سے بچنے کے لیئے ٹیوب ویلوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ دوسری جانب حکومت کی مکمل آشیرباد سے واپڈا (میپکو) کسانوں کی کمر توڑنے کے درپے ہے۔

جس نے اور بلنگ کے ذریعے 70 ارب روپے وزیراعلیٰ پنجاب کو اکٹھے کر کے دیئے ہیں۔ اوور بلنگ ہو یا پھر لوڈشیڈنگ واپڈا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اگر کسان اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیں تو ہمارا اندھا قانون ان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ ادھر موجودہ حکومت کسانوں کو سبسڈی دینے اور زرعی ٹارگٹ پورے کرنے میں بالکل فلاپ ہو چکی ہے۔ کیونکہ ہمارے ان شریف برادران کو صنعت و تجارت سے گہری دلچسپی ہے۔ بہرحال میں آپکی توجہ گزشتہ دنوں واپڈا اور پولیس کی طرف سے مروٹ کے غریب کسانوں پر ہونیوالے ظلم و تشدد کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جہاں ضلع بہاولنگر کی پولیس نے پولیس گردی کی انتہا کرتے ہوئے خواتین اور معصوم بچوں کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بنایا اور مروٹ کے 6 چکوک کو یرغمال بنا لیا اور 5 دن تک غیر قانونی طور پر آپریشن جاری رکھا اور 80 بے گناہ کسانوں کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا۔

باوثوق ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والے کسانوں میں سے اکثریت کا تعلق چک نمبر 337/H.R اور 341/H.R سے ہے۔ جو کہ مقامی کسانوں کے لیڈر عامر وٹو کے آبائی گائوں ہیں اور مقامی پولیس کے مطابق ان کے خلاف مقدمات نمبر193/13 بجرم 149,148,186,353,395 اور مقدمہ نمبر 330/14 اور 331/14 بجرم 7ATA درج ہیں۔ معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مقامی کسانوں نے عامر وٹو کی سربراہی میں اووربلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف SDO واپڈا کے خلاف احتجاج کیا تو SDO واپڈا نے DSP تحصیل فورٹ عباس عابد وڑائچ کی سربراہی میں بھاری نفری سمیت کسانوں پر دھاوا بول کر انہیں منتشر کر دیا اور احتجاج کرنے والے کسانوں کو حراست میں لے لیا۔ واپڈا کا موقف ہے کہ ملزمان سول نافرمانی کر رہے تھے بعد ازاں ضلع بہاولنگر کی پولیس نے گرفتار ہونے والے کسانوں کے لواحقین اور خصوصا چک نمبر337/H.R ، 338/H.R ،339/H.R ، 340/H.R اور 341/H.R کے مکینوں کا جینا دو بھر کر دیاتھا پولیس دن دیہاڑے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کر کے دندناتی پھرتی رہی۔ خوف و حراس کی وجہ سے مکین گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور ان کے مویشی بھوکے ، پیاسے تڑپتے رہے۔

کوئی پرسان حال نہ تھا۔ جی ہاں اعجاز الحق ایم این اے کا حلقہ ہے لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے لٹیرے سیاستدان بھی غفلت کی نیند سوئے رہے۔ کسانوں پر پولیس گردی کے خلاف مقامی جاگیرداروں ، وڈیروں، چودھریوں، شاہوں اور لیٹرے سیاستدانوں کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ مگر ایک ہمدرد مونس اور مسیحا ایسا بھی موجود ہے جس نے حکومت کی ناانصافیوں اور وسیب دشمن حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ 20 نومبر کو حاصل پور پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے نلاقات کے بعد شیر پنجاب کسانوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرنے مروٹ پہنچے۔ حاصل پور میں انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کی کھلم کھلا مخالفت پر وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ کو وزارت سے مستفعی ہو جانا چاہیے۔

مروٹ میں جمشید دستی ایم این اے کی اطلاع ملتے ہی انتظامیہ چھپ گئی ۔ جمشید دستی نے کہا کہ مروٹ میں کسانوں کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ بارے ہائی کورٹ (عدالت عالیہ) ازخود نوٹس لے، انہوں نے حکومت پنجاب واپڈا اور ڈی پی او بہاولنگر سمیت پنجاب پولیس کی بھر پور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ریاست میں جمہوریت کا نشان تک نہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ریاست ایک پولیس سٹیٹ (Polie State) بن چکی ہے ۔ا نہوں نے مروٹ کے کسانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس بات کا عزم بھی کیا کہ وہ اسمبلی میں سانحہ مروٹ کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور اسکی شفاف تحقیقات کرا کر کرپٹ اور ملوث افسران کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ پہلے ہی دہشت گردی نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس طرح کسانوں کا استحصال اور ان پر تشدد کرتی رہی تو ملک معیشت کی کمر ٹوٹ جائیگی اور ہمارا ملک ایک ناکام ریاست بن جائے گا۔

تحریر: سید مبارک علی شمسی
ای میل mubarakshamsi@gmail.com