counter easy hit

رکن سندھ اسمبلی بلقیس مختار پاک سر زمین پارٹی میں شامل

MPA Bilquis i

MPA Bilquis i

پاک سر زمین پارٹی کے بانی مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کی ایک اور پتنگ کاٹ ڈالی۔ رکن سندھ اسمبلی بلقیس مختار نے مصطفیٰ کمال کے قافلے میں شامل ہو گئی۔
کراچی: (یس اُردو) ایم کیو ایم کو ایک اور جٹھکا۔ پاک سر زمین پارٹی کے بانی مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کی ایک اور پتنگ کاٹ ڈالی۔ مصطفی کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کی رکن سندھ اسمبلی بلقیس مختار نے مصطفی کمال کی پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ بلقیس مختار عزیز آباد سے ایم کیو ایم کی رکن سندھ اسمبلی متخب ہوئی تھیں۔ مصطفیٰ کمال نے کہا بلقیس مختار کو وطن پرستی کے قافلے میں شرکت میں پر مبارکباد دیتا ہوں۔ مصطفیٰ کمال نے آج بھی اپنی پریس کانفرنس میں فاروق ستار کا ذکر کرتے ہوئے کہا فاروق بھائی ساری خبریں دے رہے کہ انہوں نے منتر کروانے شروع کر دیئے ہیں ۔ کبھی ان کا جلسہ منسوخ اور کبھی انیس قائم خانی کی لڑائی کی خبریں دیتے ہیں۔ فاروق بھائی معصوم اور مظلوم بھی ہیں۔انہوں نے کہا متحدہ قائد کو ماننے والے بتا دیں ان کا مقصد کیا ہے ۔ ان سے کہتا ہوں کہ اپنی ماؤں ، بہنوں کی فکر کرو۔ متحدہ کے کارکنوں نے حاصل کیا کرنا ہے؟۔ نسیلیں تباہ ہو گئی اور را کے ایجنٹ بنائے اور توبہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متحدہ قائد نے 15 ہزار لوگ مروا دیئے اور فخر محسوس کرتے ہیں۔بلقیس مختار نے ایم کیو ایم اور سندھ اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ایک ماہ سے مصطفیٰ کمال کی باتوں کو سن رہی تھی۔ یہی گھٹن میرے اندر بھی تھی اور مصطفیٰ کمال کی سچائی سنی جو میرے اندر بھی تھی۔ آج پاک سر زمین پارٹی جوائن کر لی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا 35 سال متحدہ کے ساتھ رہنے کے بعد یہاں گروپنگ کرنے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے متحدہ قائد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے ہمیں کیا پہچان دی، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور را کے ایجنٹ؟۔ آپ کو صرف چاپلوسی کرنے والے رہنما اور کارکن پسند ہیں۔ جانیں دینے والی خواتین کارکن اب پارٹی میں کیوں نہیں ہیں؟ ہم 146را145 کے ایجنٹ اور ملک دشمن نہیں ہیں آپ کو ماؤں بہنوں کے تقدس کی بھی پروا نہیں ہے۔بلقیس مختار نے کہا اگر میں ہمت کر سکتی ہوں تو پرانے کارکن بھی آ جائیں ۔ سولی دیدے جو مرضی کر لے نہیں ڈروں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا جب صولت مرزا کو پھانسی ہوئی تو بہت روئی تھی۔ یہ وہی کارکن تھے جو آپ کا اثاثہ تھے ان کو کریمنل کہا اور کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا۔