counter easy hit

ماہِ گداگراں کی آمَد مَرحَبا

رمضان المبارک شروع ہوئے دو دن ہو چکے ہیں۔ ایک طرف لوگ اس بابرکت مہینے کی برکتوں کو سمیٹنے کے لیے تیاریاں کررہے ہیں تو دوسری طرف لوگ مالی فوائد کے لیے دماغ لڑا رہے ہیں کہ کس طرح موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں گداگر۔

باقی ملک کا حال تو نہیں معلوم لیکن لاہور کا تو ہر سال بُرا ہی حال ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے مختلف حصوں سے گداگر رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی شہر اقبال پہنچ جاتے ہیں، زیادہ تعداد جنوبی پنجاب سے آتی ہے۔ شہر کی حالت اِس قدر خراب ہوجاتی ہے کہ ایک کو منع کریں تو دس اور سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

تمام چھوٹے بڑے شہروں میں گداگروں کا ہجوم نظر آتا ہے اور قطار اندر قطار چوکوں, پارکوں, سڑکوں مارکیٹوں, اور بازاروں میں یہ گداکر شہریوں اور خریداروں کا جینا حرام کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد پیشہ ور گداگروں کی ہے جو راہ گیروں کا دامن پکڑ لیتے ہیں اور کسی کو نہ سکون سے کچھ کھانے پینے دیتے ہیں اور نہ روزمرہ اشیاء کی خریداری کا موقع دیتے ہیں۔ جوان عورتیں گداگری کے پردے میں چوری کی وارداتیں بھی کرتی پائی جاتی ہیں۔

گداگروں کو یہاں لے کر آنے والے ان کو مختلف مقامات ٹھیکے پر دلواتے ہیں، اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو دیہاڑی پر بھیک منگواتے ہیں۔ یہ ایک منظم گروہ ہے جو دورافتادہ علاقوں میں بسنے والوں کو غربت سے نجات دلانے کا جھانسا دے کر شہر میں گداگری کیلئے لاتے ہیں۔ رمضان المبارک ان بھکاریوں کیلئے ایک سیزن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون گداگر کے مطابق ایک ہزار سے پندرہ سو روپے رمضان کے دنوں میں کماتی ہے، جبکہ معذور مرد اس سے بھی زیادہ کما لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گداگروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

رمضان کے ایام میں زیادہ تر جو خواتین اور بچے آپ کو شہر لاہور کی سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آئیں گے، وہ طرح طرح کی کہانیاں سناتے ہیں۔ کوئی خاتون کہیں گی کہ اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا ہے، بچوں کے ساتھ گاؤں سے شہر لاہور میں کام کی تلاش میں آئی ہے اور اس کے بعد رو رو کر پیسوں کا تقاضہ کرتی ہے۔ کئی خواتین یہ کہانی سناتی نظر آتی ہیں کہ انہیں گاؤں واپس جانا ہے اور ان کے پاس کرایہ نہیں ہے۔ اگر آپ ان کو لاہور سے ساہیوال کا کرایہ دے دیں تو وہ واپس اپنے گھر چلی جائیں۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ شہر کے لوگ اس طرح سادہ لوح افراد کی مدد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی ضرورت مند کی مدد کرکے بہت نیکی کا کام کیا۔

ہٹے کٹے افراد مانگنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے، یہ افراد ’کام چور‘ ہوجاتے ہیں اور اسی کو اپنا پیشہ سمجھ کر اپنے بیوی بچوں کو بھی بھیک مانگنے میں لگا دیتے ہیں۔ ایک بھکاری نے یہ بتایا کہ ہم لاہور صرف رمضان میں آتے ہیں اور رمضان میں اتنا جمع کرلیتے ہیں کہ کافی عرصہ آرام سے گزر جاتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ یہ سوچ کر ان خانہ بدوشوں کو پیسہ دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے بھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھرکر کھا سکیں اور اچھے کپڑے پہن سکیں۔ حالانکہ ان افراد کی اکثریت اس سوچ کی قائل ہے کہ بچوں کو صاف کپڑے پہنانے کے بجائے نیم برہنہ رکھنے میں زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس حالت زار پر لوگ ترس کھا کر زیادہ امداد کرتے ہیں۔

اگر ہم عہد کرلیں کہ اِس رمضان کسی غیر مستحق اور اس طرح کے خانہ بدوشوں کی امداد کے بجائے ایسے سفید پوش افراد کی مدد کریں جو ہمارے اردگرد رہتے ہیں لیکن عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تو یقیناً معاشرے میں بگاڑ کے بجائے نکھار پیدا ہوگا۔ یہ پیغام خاص کر ایسی خواتین کے لیے ہے جو ہر مانگنے والے کو ضرورت مند سمجھ کر اُن کی مدد کردیتی ہیں، جس کی وجہ سے حقدار محرومی کا شکار رہتے ہیں۔