counter easy hit

گھاس سے بنے شاہکار فن پارے

لندن: 2 برطانوی مصور پچھلے 24 سال سے ایسے فن پارے تخلیق کررہے ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی تصویر لگتے ہیں لیکن درحقیقت انہیں کینواس پر گھاس اُگا کر تیار کیا جاتا ہے۔

Masterpiece artwork made from grass

Masterpiece artwork made from grass

ہیدر ایکروئیڈ اور ڈین ہاروے کا کام پہلی بار 1992 میں منظرعام پر آیا جسے مصوری کے شائقین نے بہت پسند کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بھی تصویر تخلیق کرنے کے لیے بہت منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے جس میں کینواس کی موٹائی اور جسامت سے لے کر گھاس کی مختلف اقسام کا انتخاب اور ہر حصے کے لیے مختلف دھوپ اور نمی جیسی باتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔البتہ اس محنت کے بعد وجود میں آنے والے فن پارے انتہائی جاندار اور اتنے منفرد ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ مثلاً بوڑھی عورت کی یہ دیوقامت تصویر ملاحظہ کریں جس کے چہرے پر جھریاں تک نمایاں اور یوں لگ رہا ہے جیسے سبز رنگ کا فلٹر لگا کر عورت کی تصویر کھینچی گئی ہو۔

اب پہلو بہ پہلو رکھی ہوئی ان چار تصاویر کو ملاحظہ کریں جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ پرانے زمانے کے کسی بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے کھینچی گئی ہوں اور پھر جدید فوٹوشاپ کے ذریعے ان میں سبز رنگ نمایاں کردیا گیا ہو، حالانکہ یہ سب کچھ صرف ترتیب اور مہارت سے گھاس اگانے کا کمال ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ آرٹ گیلری میں رکھی ہوئی ان تصویروں کا ہے جن میں گھروں کے بیرونی حصے دکھائے گئے ہیں۔

گھاس کا یہ پردہ 2015 میں فرانس میں منعقدہ ایک عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقعے پر کانفرنس ہال کے باہر رکھا گیا تھا جس کا مقصد ماحول دوستی اور آرٹ کو یکجا کرکے پیش کرنا تھا۔

یہ ایک اور تصویر ہے جس میں کسی شخص کا چہرہ بنایا گیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ بالکل اصل لگتا ہے۔

ایکرویارڈ اور ہاروے کو گھاس سے تصویریں بنانے والے کام کی بناء پر دنیا بھر سے پذیرائی مل چکی ہے۔ اپنے فن پاروں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ ویب سائٹ بھی بنالی ہے۔

ان کا کہنا ہے اگر مناسب دیکھ بھال جاری رکھی جائے تو ایسا کوئی بھی فن پارہ برسوں تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رہ سکتا ہے لیکن توجہ نہ دینے پر صرف چند دنوں ہی میں یہ تصویریں اپنی اصل خوبصورتی سے محروم ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کی گھاس غیر متناسب طور پر بڑھ جاتی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website