counter easy hit

دیوانگی کی دہلیز

امر جلیل

آخر کب تک کوئی لگاتار زوال پذیر معاشرتی اور مملکتی ماحول میں رہتے ہوئے اپنا ذہنی توازن برقرار رکھ سکتا ہے؟ کب تک ؟ دس برس، پچیس برس، پچاس برس، ستر برس؟ مجھے خوش فہمی ہے اور نہ غلط فہمی ہے کہ میں قوم کی نمائندگی کرتا ہوں، اس لئے میں نعرہ نہیں لگاتا کہ قدم بڑھائو لیاقت علی خان، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو خواجہ ناظم الدین، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو غلام محمد، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو اسکندر مرزا قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو ایوب خان قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو یحیٰی خان قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو ذوالفقار علی بھٹو، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو ضیاء الحق قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو بینظیر بھٹو، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو پرویز مشرف، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو آصف علی زرداری، قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھائو نواز شریف، قوم تمہارے ساتھ ہے، ستر برس سے اسی نوعیت کے نعرے سنتے سنتے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہوں، میں چونکہ قوم کی ترجمانی کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہتا، اس لئے میں دعویٰ نہیں کرتا کہ اس طرح کے نعرے لگاتے اور سنتے سنتے قوم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے، یا کہ اب تک ہوش حواس میں ہے، میں کسی کی ترجمانی نہیں کرتا، ایک فرد کی حیثیت میں میں اپنی بات کر رہا ہوں، لگاتار، مسلسل ستر برس سے زوال پذیر معاشرتی اور مملکتی حالات میں رہتے رہتے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہوں۔
آپ کا حواس باختہ ذہن تب اپنے وطن کو اپنا وطن ماننے سے انکار کردیتا ہے جب اپنے ہی وطن میں آپ کی عزت، آپ کے بال بچے، آپ کا گھر بار، آپ کے حقوق محفوظ نہیں رہتے، تب آپ اپنے ہی وطن میں جلا وطن ہو جاتے ہیں، آپ اپنے آپ کو دیار غیر میں محسوس کرتے ہیں، ایسے میں آپ خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں، خودکشی کے مختلف طریقوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور ایک روز خودکشی کرلیتے ہیں۔
خودکشی کرنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دی جائے، یا پھر کیڑوں مکوڑوں کو مارنے والا محلول پی کر کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرجایا جائے، یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ریل کی پٹری پر لیٹ کر خودکشی کی جائے، خودکشی کرنے کے اس طرح کے طریقے بڑے ڈرائونے اور دردناک ہوتے ہیں، مگر اس طرح خودکشی کرنے کا ایک مثبت پہلو ہے، آپ فوراً مرجاتے ہیں مگر خودکشی کرنے کا ایک آسان طریقہ بھی ہے۔ جب آپ بداخلاق، بدکردار اور بدنیت معاشرتی اور مملکتی ماحول میں چپ سادھ لیتے ہیں، خاموش رہتے ہیں، آنکھیں موندھ لیتے ہیں اور پستی سے سمجھوتا کرلیتے ہیں تب آپ خودکشی کر لیتے ہیں، اس طرح کی خودکشی کا دورانیہ لمبا، دردناک اور شرمناک ہوتا ہے، آپ لمبے عرصے تک آہستہ آہستہ اور سسک سسک کر مرتے ہیں، کوئی ستر برس سے لمحہ بہ لمحہ مر رہا ہے، کوئی ساٹھ برس سے، کوئی پچاس برس سے، کوئی چالیس برس سے لمحہ بہ لمحہ مر رہا ہے، ہر وہ شخص خودکشی کر رہا ہے جو زوال پذیر معاشرتی اور مملکتی معاملات کیخلاف آواز نہیں اٹھاتا، احتجاج نہیں کرتا، اختلاف رائے کا اظہار نہیں کرتا، لگاتار، لمحہ بہ لمحہ مرنے سے زیادہ اذیت ناک موت کا اور کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔
ایک الگ تھلگ ملک کے کتنے سہانے خواب دکھائے تھے ہمیں آل انڈیا مسلم لیگ نے، مگر اس وقت سہانے خواب کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی، تمام تر زور اس بات پر تھا کہ ہم وہاں اپنی مرضی کے مطابق اور اپنی مرضی سے زندگی گزاریں گے، اب جاکر پتہ چلا ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے دعویٰ سے آل انڈیا مسلم لیگ کی مراد کیا تھی، ہمیں کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہوگی، ہم مادر زاد آزاد ہوں گے، جو ہمارے جی میں آئے گا ہم کر گزریں گے، کسی قسم کے قانون کی پابندی نہیں کریں گے، لوٹ کھسوٹ میں ہم دنیا کے بدنام ترین ممالک کو پیچھے چھوڑیں گے، کوئی کام رشوت دیئے، رشوت لئے بغیر نہیں کریں گے، انصاف اور حقوق کی دھجیاں اڑا دیں گے، خزانے خالی کردیں گے، تعلیم اور تربیت کو تڑی پار کردیں گے، نالائق کو لائق پر فوقیت دیں گے، سائیکل چوری کا کیس بیس برس چلائیں گے، قتل عیسیٰ کرے گا، پھانسی موسی کو دی جائے گی، رہزنوں کو رہبر اور رہبروں کو رہزن بنا دیں گے، قصائی بکروں کی رکھوالی کریں گے، چور بازاری جائز سمجھی جائے گی، حکمراں امیر ترین اور محکوم غریب تر ہوتے جائیں گے، ہم اپنے نئے وطن میں ہر وہ کام کھلی آزادی سے کریں گے جو کام ہم انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان میں نہیں کرسکتے تھے۔
الحمدللہ! جو کام ہم انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان میں نہیں کرسکتے تھے،    اب اپنے وطن میں خیروخوبی اور آزادی سے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمان نہ صرف ایک دوسرے کی مساجد اور ایک دوسرے کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے، وہ اپنے وطن میں بڑی آزادی سے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں…ہر فرقہ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں مسلمان اور دوسروں کو دو نمبر کا مسلمان سمجھتا ہے…جن مسلمانوں کو وہ دو نمبر کا مسلمان سمجھتے ہیں، ان کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ مگر علماء فرماتے ہیں کہ یہ یہودیوں اور نصاریٰ کی ناپاک سازش ہے، ورنہ ہم سب مسلمان ایک ہیں، ہم ایک دوسرے کو کبھی قتل نہیں کرتے، ہم ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے ہیں…یہ جو پچھلے دنوں میرے شہر کراچی سے ذرا دور ناظم آباد میں مجلس کی تیاری کے دوران دو دہشت گرد وارد ہوئے تھے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے چار سگے بھائیوں سمیت چھ عزا داروں کو موت کے گھاٹ اتار کر فرار ہوگئے تھے، کہتے ہیں کہ ان قاتلوں کا تعلق مسلمانوں کے کسی فرقے سے نہیں تھا، وہ ہندو تھے، یہودی تھے، عیسائی تھے، بدھ مت کے پیروکار تھے، وہ مسلمان نہیں تھے، وہ کمیونسٹ تھے، وہ ملحد تھے، وہ دہریئے تھے اور سامراجیوں کے پٹھو تھے۔
میرے آل انڈیا مسلم لیگیو اگر آپ موٹرسائیکل چلانا نہیں جانتے تو پھر موٹرسائیکل لینے کی خواہش کیوں کرتے ہیں؟ خواہ مخواہ اپنی ٹانگیں تڑوائیں گے، اگر آپ سواری نہیں کرسکتے تو پھر گھوڑا رکھنے کی تمنا کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کو کھیتی باڑی نہیں آتی تو پھر زمین کیوں لیتے ہیں؟ ایک قائداعظم کی حکمت عملی کی وجہ سے آپ کو پاکستان تو مل گیا، مگر ایک ملک چلانے کی صلاحیت تو رکھتے! آدھا ملک تو آپ نے گنوا دیا، باقی ماندہ پاکستان کی جو حالت آپ نے بنائی ہے وہ دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، ارے بھائی ملک چلانے کا ہنر تو انگریز سے سیکھتے، پھر ایک الگ تھلگ ملک کا مطالبہ کرتے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website