counter easy hit

اٹھاون ٹو بی اور ہمارے جولیس سیزرز

عدنان رندھاوا

بحران نہ ہو تو پیدا کیا جا سکتا ہے ، پیدا نہ کیا جا سکے تو بحران کاشدید تاثر دیا جا سکتا ہے، اور اگربحران کا شدید تاثر بھی نہ دیا جا سکے تو پھر کیا کیا جائے؟ایسی صورت میں اٹھاون ٹو بی کی یاد میں جام چھلکائے جا سکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے متفقہ آئین میں سے جمہوریت کو’’ تلف‘‘ کرنے کیلئے اس زمانے کے چوٹی کے ماہرین قانون کی ایک پوری ٹیم ماسک اور کوٹ پہنے آئین کی سرجری میں مصروف رہتی تھی۔پہلے انہوں نے آئین پاکستان کو دست وپا سے محروم کیا ،پھر آئین پاکستان سے اس کی روح نکال کر اس میں اٹھاون ٹو بی کو ٹرانسپلانٹ کر دیا گیا۔جمہوریت کے جن کو زیادہ دیر تک بوتل میں بند رکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔سیاسی قیادت میں بھی شعور ، اخلاص، ادراک اور نظریے کی رمق ابھی باقی تھی کہ سرے محل، پانامہ ،چھانگا مانگااور بنی گالا جیسی اصطلاحات ہماری سیاسی لغت میں ابھی داخل نہیں ہوئی تھیں۔اور مغربی دبائو بھی موجود تھا جو کمیونزم کی آمریت کے خلاف جمہوریت اور آزادیوں کا سب سے بڑا بیوپاری تھااور پاکستا ن دنیا کے ان بیسیوں ملکوں میں شامل تھا جہاں مغربی مصنوعات کی بڑی مانگ تھی۔ سو جمہوریت کے جن کو بوتل سے باہر نکالنا مجبوری تھی لیکن اس چیزکا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ اس جن کی جان-اٹھاون ٹو بی نامی طوطے میں موجود رہے اور جب دل چاہے چپکے سے اس طوطے کی گردن مروڑ دی جائے۔
پچھلے ایک ہفتے میں جو کچھ ہوا ، کچھ لوگوں نےاٹھاون ٹو بی-کو بہت یاد کیا، اسکی یاد میں آنسو بہائے۔ جب اٹھاون ٹو بی حیات تھی تو بھی آنسو بہائے جاتے تھے۔ پہلی دفعہ ہے کہ مرحومہ کی یاد میں گلی کے اُس پار دیوارِ گریہ چنی گئی ہے۔لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اِس پار جشن یا یوم تشکر منانے کا وقت آ چکا ہے۔ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔اس کشمکش کی جھلک دیکھنا ہو تو 1963میں سب سے زیادہ بجٹ سے بننے والی مشہور انگریزی فلم ’’قلوپیٹرا‘‘ میں  جولیس سیزر کے قتل سے پہلے کے ڈائیلاگز میں اسکی بہت خوبصورت عکسبندی کی گئی ہے۔ جولیس سیزرقسمت کا دھنی تھا اورقدرت نے اُسے اوپر نیچے بہت سی کامیابیوں سے نوازا۔ اس نے دو اور لوگوں کے ساتھ اتحاد بنا کر پہلی دفعہ رومن ریپبلک پر حکومت کی ، خانہ جنگی میں دوسرے دونوں اتحادیوں کو شکست دے کر اقتدار کے واحد امیدوار کے طور پر سامنے آیا، پھر بہت سی اہم جنگیں جیت کر وسیع و عریض علاقے ریاست روم کے زیر نگیں کئے۔ ان ساری کامیابیوں نے اسے رومی قوم کا ہیرو بنا دیا ۔جولیس سیزر کی کامیابیوں اور خدما ت کے صلے میں رومی سینیٹ پہلے ہی اسے ’’تاحیات ڈکٹیٹر ‘‘ کا خطاب اور اختیارات دے چکا تھا لیکن جولیس سیزر بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ پورے روم کا بادشاہ جو رومی پارلیمان یعنی سینیٹ کی پابندیوں سے آزاد ہو ۔ رومی قوم آج سے دو ہزار سال پہلے بھی سخت جمہوریت پسند تھی اور ’’بادشاہ ‘‘ کے لفظ اور عہدے کو سخت ناپسند کرتی تھی لیکن جولیس سیزر اپنی کامیابیوں اور احسانوں کے بدلے میں بادشاہ بننے پر بضد تھا۔بادل ناخواستہ رومی پارلیمان جولیس سیزر کو صرف رومی مفتوحات کا بادشاہ بنانے پر رائے دہی کیلئے آمادہ ہو جاتی ہے اور جب اس  رائے دہی کا دن آتا ہے ، بہت سے اراکین پارلیمان مل کر جولیس سیزر کو پارلیمان کی عمارت کے اندر قتل کر دیتے ہیں۔جولیس سیزر کا قتل بھی رومن ریپبلک کو نہیں بچا سکا اور اسکا جانشین آگسٹس بالآخر رومی جمہوریت کو رومی بادشاہت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ رومن ریپبلک سے بھی پانچ سو سال پیچھے چلے جائیں تویونان کے شہر ایتھنز میں انسانی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت کا پتہ چلتا ہے۔ایتھنز کی مشہور شہری ریاست میں جمہوریت رائج تھی۔ یونانی فلسفیوں کے لئے بھی جمہوری طرزحکومت ایک اہم موضوع تھا۔ اگر آپ تاریخ کو مزید گہرائی سے کھوجنے پر مصر ہوں تو سوشلسٹ دانشوروں کے وہ دعوے سامنے آئیں گے جو اگرچہ تاریخی طور پر تو ثابت شدہ نہیں ہیں لیکن عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان کی حقانیت تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ ان دعوئوں کے مطابق اولین انسانی معاشرے، جو جنگلوں اور غاروں کی زندگی سے متعلق تھے اور جب انسان کا واحد ذریعہ حیات شکار کے جانور تھے، اپنا نظام جمہوری اور سوشلسٹ بنیادوں پر چلاتے تھے ۔
یہ ساری مثالیں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان سے سبق اخذ کئے جائیں۔پہلا سبق تو یہ ہے کہ جمہوریت آمریت سے ارتقا کی حتمی منزل نہیں جیسا کہ عموماً تصور کیا جاتا ہے بلکہ حقِ حکمرانی پر جمہور اور آمر کے درمیان کشمکش ایک مسلسل تاریخی حقیقت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی لئے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے پاکستان کے سب سے نا پسندیدہ ڈکٹیٹر اور اسکے قانون دانوں کی انتہائی قابل ٹیم کواٹھاون ٹو بی کے کریڈٹ سے محروم کرنا پڑے گا۔   اٹھاون ٹو بی تو تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور ہر دور میں کسی نہ کسی آمر نے کسی نہ کسی لبادے میں چھپا کر اسکا استعمال کیا ہے۔ اگراولین انسانی معاشروں میں جمہوریت رائج تھی تو کسی نہ کسی آمر نے تواٹھاون ٹو بی ایجاد کی ہوگی۔اگر آج سے 2500سال پہلے یونانی شہری ریاستیں جمہوریت دریافت کر چکی تھیںتودنیا واپس بادشاہت کی طرف کیسے راغب ہوئی؟ اگر2000سال پہلے کی سپر پاور یعنی روم نے رومی پارلیمان قائم کر لی تھی تو ان 2000سالوں کی تاریخ ہزاروں بادشاہوں اورآمروں سے کیوں بھری پڑی ہے؟ اورجمہوریت کی تاریخ کا دوسرا سبق بھی ہے اٹھاون ٹو بی کہر صرف آمروں ہی کی اجارہ داری نہیں بلکہ بہت سی مثالیں ایسی بھی موجود ہیں جب جمہوریت پر ضرب جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے جمہوریت پسندوں ہی نے لگائی جوجمہور سے اپنی کامیابیوں اور احسانوںکے صلے کے طلبگار تھے،زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ارتکاز کا تقاضا کرتے تھے، پارلیمان اور کابینہ کے تکلفات سے بیزار تھے اور جولیس سیزر کی طرح جمہوریت کو بادشاہت میں بدل دینے کے خواہشمند تھے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website