counter easy hit

لارڈ نذیر زندہ باد

منصور آفاق

جب عمران خان نےدو نومبر کے دھرنے کو یوم تشکر کے جلسے میں تبدیل کیا تو ہر طرف ایک شور برپا ہوگیا کہ عمران خان ناکام ہوگیا اور اب اپنی ناکامی کو چھپانے کےلئے یومِ تشکر منا رہا ہے۔اسے تو یوم ِ تفکر منانا چاہئے تھا ۔زرداری پارٹی نے اسے عمران خان کا ایک اور یوٹرن قرار دیااور کہا کہ ایک اور نیازی نے ہتھیار ڈال دئیے ۔شریف لیگ نے کہا کہ دھرنا ختم کرنےکا سبب دراصل یہ ہے کہ عمران خان کو پارٹی کے سینئر لیڈروں سے شکوہ تھا کہ وہ ملک بھر سے لوگوں کو اکٹھا کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرسکے-وہ وزیرجس کی اپنی سیاست سپریم کورٹ کے ایک ا سٹے آرڈرکے مرہون ِ منت ہے ۔اس نے عمران خان کی سیاست کے خاتمہ کااعلان کردیا۔جس کے منہ میں جو بات آئی اُس نے کی ۔ یعنی سیاست کی بد تہذیبی کی جھاگ ہر طرف بہتی دکھائی دی ۔خود پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں کے ماتھے اس فیصلے پر شکنوں سے بھر گئے ۔شیخ رشید بیچارے تو اتنے پریشان ہوئے کہ سونے کےلئے انہیں نیند کی دو گولیاں کھانی پڑ گئیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بعدمیں انہیں احساس ہوا کہ عمران خان کا فیصلہ درست تھااورہر آنے والادن یہی ثابت کررہا ہے کہ کپتان کا فیصلہ درست ہی نہیں فیصلہ کن بھی ثابت ہونے والا ہے۔بے شک لمحہ بھر کےلئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مورال ڈائون ہوا مگر یوم تشکر کے جلسہ نے ثابت کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اپنے لیڈر کے فیصلوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جلسہ عام میں عمران خان کو جھوٹا،گالیاں دینے والا اور پگڑیاں اچھالنے والا قرار دیتے ہوئے کہا کہ دعویٰ کیا کررہے تھے اور ملا کیا ؟ ۔
ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عمران خان نے مطالبہ کیاتھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیدے یا تلاشی دے ۔اس مطالبہ میں واضح طور پر یہ بات تھی کہ استعفیٰ کی صورت میں تلاشی نہیں لی جائے گی مگروزیر اعظم نے اِس موقع کو گنوادیا ۔دوسری طرف سپریم کورٹ نے تلاشی کے عمل کا آغاز کردیا اور وزیر اعظم نواز شریف نے بھی تلاشی دینے پر رضامندی کا اظہار کردیا۔یعنی عمران خان مطالبہ پورا ہوگیا تھا اگر وہ اس کے بعد بھی اگلے دن اسلام آبادکو بند کرتے تو اس کاسیدھا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ملک میں مارشل لالگوانا چاہتے ہیں ۔ بھلا عمران کو کسی غیر آئینی کام سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ۔وہ تو ایک نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور اسے جمہوری تسلط کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو اُس مارشل لاسےبچا لیا ہے جس کے واضح امکانات دو نومبر کوپیدا ہوجانے والےتھے ۔ ویسے ابھی تک یہ خارج از امکان نہیں۔ایک ڈیڑھ ہفتے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ تلاشی کے عمل میں حکومت کی غیر سنجیدگی ثابت ہوسکتی ہے۔حسن ، حسین اور مریم کو آخری تاریخ کل تک دی گئی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوموار یعنی کل تک جواب نہ ملا تو سمجھا جائے گا کہ الزامات تسلیم کر لئے گئے ۔مجھے یقین ہے کہ کل بھی کسی مختصر جواب کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ اور وقت کی مہلت مانگی جائے گی ۔وزیر اعظم کی طرف سے جو جواب دیا گیا ہے وہ ان کی تقاریر جن کے ویڈیوز عدالت میں پیش کئے گئے ہیں ان کے مکمل طور پر برعکس ہے۔کسی زمانے میں ویڈیو شہادت کو عدالتیں تسلیم نہیں کیا کرتی تھیں مگر اب پوری دنیا میں ویڈیو یا آڈیو شہادتیں کورٹس تسلیم کرتی ہیں صرف اتنا کیا جاتا ہے کہ ماہرین سے ان کےدرست ہونے کی تصدیق کرا لی جاتی ہے۔یعنی مسئلہ عدالت میں بھی خاصا گمبھیر ہے ۔سراج الحق تک نے کہہ دیا ہے کہ حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن اور اسفند یارولی خان تک حکومت کے حق میں اس کیس کے خلاف یک زبان دکھائی دیتے ہیں ۔بلاول بھٹو بھی جوڈیشل کمیشن کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے ہیں ۔حکومت کی حمایت کا کیافنکارانہ انداز ہے کہ فرماتے ہیں ’’اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو جوڈیشل کمیشن اور حکومت دونوں کو نہیں چلنے دیں گے ۔صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ۔کچھ دوستوں کو تو پی ٹی آئی کے اس دعویٰ پر(کہ لاک ڈائون سے نواز شریف تلاشی پر مجبور ہوئے )لطیفے یاد آنے لگے ہیں ۔میرا ان دوستوں سے سوال ہے کہ آنکھوں اور آنسو گیس کا مقابلہ نون لیگ کےلئے اتنا تکلیف دہ تھا کہ اسے ہر لمحہ ملک کی طرف مارشل لاکے سائے لپکتے ہوئے نظر آتے تھے۔ویسے تو جس خبر پر پرویز رشیدسے اطلاعات کی وزارت کا قلم دان واپس لیا گیا ہے ۔وہ خبر ایک سلگتے ہوئے انگارے کی طرح حکومت کی ہتھیلی پر پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس انگارے سے کیسے جان چھڑائی جائے ۔ہتھیلی کی جلد کے جلنے کی سرانڈچاروں طرف پھیلتی جارہی ہے۔جہاں تک پرویز رشید سے وزارت واپس لینے کا تعلق ہے تو میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ قطعاً درست نہیں تھا ۔پرویز رشید کا جرم یہ قرار دیا گیا ہے ۔اس نے خبر رکوائی نہیں تھی حالانکہ جب کوئی منسٹر کی سطح کی شخصیت کسی خبر کی تردید کردے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ خبر نہ لگائی جائے ۔
عمران خان کو بھی اپنے گرد و نواح پر دھیان دینا چاہئے ۔کل جب لارڈ نذیر احمد نےوزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کی اور کہا کہ ’’پنجاب میں دیانت دارانہ ترقی کے جونئے معیار قائم کئے گئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔شہباز شریف بہت متحرک اور با صلاحیت وزیر اعلیٰ ہیں جو اپنے صوبے کی تقدیر بدل رہے ہیں ۔اِسی خشوع و خضوع سے انہوں نے دھرنے میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ لارڈ صاحب نے اُس وقت درست فرمایا تھا یا اب درست فرمایا ہے ۔ایک سوال یہ بھی اہل خبر پوچھتے پھرتے ہیں کہ جس ٹیلی فون کال پر وہ دھرنے میں تقریر کرنے گئے تھے کیاوزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی وہیں سے ملاقات کےلئے فون کال کرائی گئی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے تعلقات وزیر اعظم نواز شریف سے زیادہ بہتر ہیں۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website