counter easy hit

لاک ڈائون

Lock-down

Lock-down

ہم جس بات اور فرمائش کو بہت دِنوں سے ٹال رہے تھے بالآخر وہ ہمیں ایک تنگ موڑ پر لے آئی جہاںہمیں شدید احتجاج اور ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم جس دِن کے آنے سے بچنا چاہ رہے تھے وہ آہی دھمکا۔

غیر ضروری فرمائش پوری کرنا ہمارے بس میں نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہماری جیب کا ہلکا ہونا ہے۔ بندے کی جیب ضرور ہلکی ہو لیکن بندہ بھاری ہونا چاہئے ورنہ اُسے آئے دِن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے کئی سیاستدانوں کے نت نئے طریقے اختیار کرنے کی وجہ سے عام لوگوں میں نیا شعور بیدار ہوگیا ہے۔ اب کوئی بھی ہو وہ نرمی، پیار، محبت اور خلوص سے بات ہی نہیں کرتا۔

ہماری بیگم کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں، نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی کارکن ہیں مگر پھر بھی ہمارے ’’سیاستدانوں‘‘ کی طرح میں نہ مانوں والی پوزیشن میں آگئی ہیں، اُن کا اصرار ہے کہ میری بہن کی شادی ہے اور شادی صرف ایک بار ہی ہوتی ہے اس لئے میں نیا جوڑا بنوائوں گی۔

ہم نے لاکھ سمجھایا کہ آپ کا یہ نیا جوڑا گھر کی معیشت ، بجٹ اور مالی صورتحال پر بہت بھاری بوجھ بن سکتا ہے ۔ لیکن ہماری ایک نہ چلنی تھی اور نہ چلی۔ اگر ہم اَڑے رہتے تو بیگم اپنے میکے چلی جاتیں۔ مگر ہم کسی نہ کسی طور اُنہیں وہاںجانے سے روکتے رہے۔

کیا کرتے پہلے ہی ہم ایک بار بیگم کا دھرنا ناکام بنا چکے تھے اور اس بار بھی ہم اس زعم اور خوش فہمی میں تھے کہ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہم کامیاب رہیں گے لیکن ہر وقت قسمت ساتھ نہیں دیتی، قسمت نے اس بار دَغا دیا اور ہم ’’سرینڈر‘‘ والی پوزیشن پر چلے گئے۔

دھرنے والی حکمت عملی ہم نے اپنی شرافت سے کم اور اسٹریٹیجی سے زیادہ ناکام بنائی لیکن ہم پھر بھی اس کاسہرااپنے سَر لینے کو تیار نہیں تھے کیونکہ ہماری کامیابی اور بیگم کی ناکامی سے حالات بگڑ سکتے تھے، ہم نے اسے بھی بیگم کی کامیابی اور اپنی ناکامی کا پرچار کرنے میں اپنی عافیت سمجھی۔

دھرنا تو ختم کرادیا مگر اس بار ہم نے کیا دیکھا کہ بیگم کچھ خفیہ تیاری کررہی ہیں اور چپکے چپکے ’’پُش اَپس‘‘ بھی لگارہی ہیں، ہم تو یہی سمجھے کہ شاید وہ ایکسرسائز سے اپنا بڑھتا وزن کم کرنا چاہ رہی ہیں لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ وہ تو کسی ’’لاک ڈائون‘‘ کی تیاری کررہی ہیں۔

اُنہوں نے جہاں بہت سارے انگریزی زبان کے لفظ سیکھے وہاں اُن کی انگریزی کی ڈکشنری میں نیا لفظ ’’لاک ڈائون‘‘ کا بھی اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ پُش اَپس بھی اُنہوں نے کیا۔

ہم نے بیگم کے ارادے بھانپتے ہی چپ سادھ لی تھی کہ مبادہ کہیں ہم اُن کی ’’خفیہ تیاری‘‘ کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ لیکن جناب! دوسری جانب بھر پور تیاری تھی اور ہم جانتے بوجھتے بھی گرداب میں آگئے اور یہ فیصلہ کن دِن بھی آگیا جب ہمیں اپنی بیگم سامنے کھڑی نظر آئیں۔

اُن کا الٹی میٹم سن کر تو ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی اور ہم ہکا بکا رہ گئے کہ ہمیں دھمکی مل رہی تھی کہ اب نیا جوڑا نہیں آیا تو پھر لاک ڈائون ہوگا اور آپ کہیں نہ جاسکیں گے۔ آپ کا کھانا پینابند کردیاجائے گی۔

ہم اس دھمکی کو دھمکی جان کر ہی مذاکرات پر آمادہ ہوچکے تھے مگر اس بار بیگم کے تیور ہی بدلے بدلے تھے، اُن کا واضح انکار ہمیں ایک اور حیرت میں مبتلا کر گیا، ہمیں شک ہوا کہ کہیں اِن کے پیچھے ’’سیاسی جماعت‘‘ یا ’’خفیہ ایجنسی‘‘ کا ہاتھ تو نہیں، لیکن ہمیں وہ خفیہ ہاتھ نہیں دکھائی دیا نہ ہی اُن کے پیچھے کسی سیاسی جماعت کا عمل دخل نظر آیا۔ ہاں البتہ وہ سیاسی جماعت کے نعروں اور اُن کی بڑھکوں سے ضرور متاثر دکھائی دیں۔ ہم نے لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح بیگم کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں مگر ناکام رہے۔

بس کیا تھا جب اگلی صبح ہماری آنکھ کھلی تو کیا دیکھا کہ ہم کمرے میں مقید ہیں اور باہر تالا لگاہے، بہت کوشش کی، دروازہ کھٹکھٹایا، آوازیں لگائیں، منت سماجت کی اور اُن کا مطالبہ پورا کرنے کی حامی بھی بھر لی مگر جناب! وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں اور اُنہوں نے تو احتجاجاًاپنی آواز بھی ہمیں نہ سنائی اور ہم التجائیں ہی کرتے رہے، مگر دوسری جانب سےکسی ردِعمل کے نہ آنے پر ہم نے چپ سادھ لی ۔

یہ حقیقت تھی کہ ہم واقعی ’’لاک ڈائون‘‘ کا شکار ہوگئے تھے، یہ لاک ڈائون شام تک جاری رہا، نہ ہمیں ناشتہ ملا، نہ لنچ اور نہ ہی ڈنر۔ رات گئے ہماری حالت بھوک سے ابتر ہوتی جارہی تھی ، ہم اُمید کے ساتھ اگلے دِن سورج طلوع ہونے کا انتظار کررہے تھے، رات بھر دُعائیں کیں، گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی اپنے رَب سے معافی طلب کی۔

اگلا دِن صورتحال کے مزید خراب ہونے کی نوید دے رہا تھا، اس بار بیگم کی گھن گرج سنائی دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک میرے مطالبات تسلیم ہونے کی تحریری یقین دہانی نہیں کرائو گے یہ ’’لاک ڈائون‘‘ جاری رہے گا۔ اِسی صورت میں یہ ’’لاک ڈائون‘‘ ختم ہوگا۔

ہم نے فوری حامی بھری اور یقین دلایا کہ ابھی اور اسی وقت چلیں گے۔ اب 2دِن بعد ہمارا ’’لاک ڈائون‘‘ ختم ہوا، ہمیں رہائی مل گئی۔ کھانا ملا اور آزادی ملی۔

اب ہماری منزل اس شاپنگ مال کی طرف تھی جو ہماری بیگم کا پسندیدہ ترین تھا۔ واپسی پر ہماری بیگم خوشحال اور ہم بدحال نظر آئے لیکن ہمیں پتہ چل گیا کہ سیاست میں تو ’’لاک ڈائون‘‘ تو نہ ہوا البتہ ہمارا گھر ضرور اس کی عملی تعبیر بنا رہا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website