counter easy hit

شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی خدمات یاد رکھی جائیں گی

King Abdullah bin Abdul Aziz

King Abdullah bin Abdul Aziz

تحریر: مصعب حبیب

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز 91 برس کی عمر میں نمونیا کے مرض کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں(انا للہ واناالیہ راجعون) خادم الحرمین الشریفین کی نماز جنازہ اداکرنے کے بعد انہیں ریاض کے تاریخی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔نماز جنازہ میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سمیت دنیا بھر کے مختلف ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی اورشاہ عبداللہ رحمة اللہ علیہ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں ان کی وفات کا غم محسوس کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا جبکہ سعودی عرب میں تین اور ترکی میں سات دن کا سوگ منایا جارہا ہے۔

شاہ عبداللہ رحمة اللہ کی وفات کے بعد ان کے بھائی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز مملکت کے فرمانروا بن گئے ہیں۔شاہ سلمان کی عمر 79 برس ہے اور انہیں 2012 میں شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد ولی عہد نامزد کیا گیا تھا۔حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق شاہ عبداللہ رحمة اللہ علیہ 1924 میں ریاض میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہی حاصل کی۔کچھ سال صحرائی قبائل کے ساتھ رہے، جنہوں نے عرب کی مخصوص اقدار اور روایات سے ا نہیں روشناس کرایا۔ 1962 ء میں شاہ فیصل نے انہیں نیشنل گارڈ کی کمانڈ سونپی۔1975 ء میں نائب وزیراعظم دوم مقرر کیے گئے۔ 1982 ء میں جب ان کے سوتیلے بھائی شاہ فہد تخت نشین ہوئے تو شاہ عبداللہ کو ولی عہد نامزد کیا ۔شاہ فہد کی وفات کے بعد یکم اگست 2005 ء کو شاہ عبداللہ تخت نشین ہوئے۔

وہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ ، وزرا کی کونسل کے سربراہ اور نیشنل گارڈز کے کمانڈر بھی تھے۔شاہ عبداللہ کو مذہب ، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچسپی تھی۔انہوں نے اپنے دور میں مملکت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی اور تعلیم ، صحت ، انفرا اسٹرکچر اور معیشت کے شعبوں میں کئی بڑے منصوبے شروع کیے۔شاہ عبداللہ کے نمایاں کارناموں میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی توسیع کے منصوبے ،4 اقتصادی شہروں کے قیام کا منصوبہ ، شاہ عبداللہ یونی ورسٹی ، پرنسس نورا یونی ورسٹی کا قیام اور کئی بڑے فلاحی منصوبے شامل ہیں۔انہوں نے سعودی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل نو کی بھی منظوری دی۔شاہ عبداللہ نے عالمی سطح پر بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔

عالمی امن و استحکام ،عرب اور اسلامی دنیا کے دفاع کے لیے بین الاقوامی سفارت کاری میں شاہ عبداللہ کی شرکت سعودی عرب کے قائدانہ کردار کی عکاسی کرتی ہے۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز 91برس کی عمر میں انتقال کرگئے ،وہ کئی روز سے نمونیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث ریاض کے اسپتال میں زیر علاج تھے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سعودی عرب کے مرحوم فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی خدمات مملکت کی تاریخ کا نمایاں حصہ ہیں۔مرحوم کا شمار ا ن اہم عالمی قائدین میں ہوتا ہے دہشت گردی کے خلاف جن کا موقف واضح، سخت اور دو ٹوک تھا۔دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کبھی حیل وحجت سے کام نہیں لیا۔حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق شاہ عبداللہ رحمة اللہ علیہ نے 2005ء میں زمام حکومت سنھبالنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف اندرون اور بیرون ملک موثر کردار ادا کیا۔

اس مقصد کے لئے انہوں نے دہشت گردی کا عالمی مرکز قائم کیا اور ریاض میں دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس کی میزبانی کی۔شاہ عبداللہ نے دہشت گردوں کو نہایت سخت الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”دہشت گرد مجرم، سفاک اور ہر قسم کی انسانی اخلاقیات سے عاری لوگ ہیں”۔سعودی عرب اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے شاہ عبداللہ نے دہشت گردی کو بین الاقومی جرم قرار دینے کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں اور اس حوالہ سے عالمی برادری کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا۔اسی طرح انہوںنے ریاض میں عالمی کانفرنس بلائی اور خود اس کی میزبانی کی۔ریاض میں انسداد دہشت گردی مرکز کا قیام بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔انسداد دہشت گردی مرکز کو عالمی سطح پر رابطے اور معلومات کے تبادلے کا ایک ذریعہ بنایا گیا۔

انہوں نے سعودی عرب میں دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے اور غیر قانونی طور پر اسلحہ اور رقوم کی بیرون ملک منتقلی کے خلاف بھی ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارے کو فعال بنانے اور دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے باقاعدہ قانون منظور کیا گیا۔دہشت گردوں کی ہر قسم کی مالی معاونت کو قانونی جرم قرار دیا گیا۔شدت پسندی کی حمایت کرنے اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی دین ومذہب نہیں۔وہ بچوں اور معصوم شہریوں کو دہشت گردی کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر کے نہ صرف مملکت سعودی عرب کو کمزور کر رہے ہیں بلکہ بیرون ملک جنگوں میں سعودی عرب کے باشندوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سعودی شہریوں کو بیرون ملک جنگوں میں گھیسٹنے یا جنگ پر اکسانے کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رحمة اللہ نے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے تمام آئینی، اخلاقی اور اصولی طریقے اختیار کیے۔انہوں نے جہاں دہشت گردی پر اصرار کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینے کے لیے قانون سازی کی وہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے تائب ہونے والوں کے لیے عام معافی کا باب بھی کھلا رکھا۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات پر وزیر اعظم نواز شریف، صدر ممنون حسین، شہباز شریف، راجہ ظفر الحق، پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید ، مولانا فضل الرحمن ، عمران خاں،اسفند یار ولی اور مولانا سمیع الحق سمیت قومی مذہبی و سیاسی قیادت نے گہرے صدمہ کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی گئی جس میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔خادم الحرمین الشرفین کی حیثیت سے شا ہ عبد اللہ بن عبد العزیز کا پاکستانیوں کے دلوں میں ایک خاص مقام ومرتبہ تھا۔ ان کی وفات سے ایک بڑا خلاء پیداہوا ہے۔ یقینی طور پر پاکستان ایک انتہائی مخلص دوست سے محروم ہو گیا ہے۔شاہ عبداللہ کے دور حکومت میں پاکستان پر جب کبھی بھی زلزلہ، سیلاب یا کوئی اور آفت آئی انہوں نے وطن عزیز پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔

سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے جانشین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی پالیسیوں پر قائم رہتے ہوئے انکے نقش قدم پر چلیں گے۔ سعودی فرمانروا کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے ٹی وی خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم ان پالیسیوں پر قائم رہیں گے جو کہ سعودی عرب کے قیام سے اب تک چلی آ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے آپس میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں امن کیلئے اپنا مثبت کردار اد اکرتا رہے گا۔ہر مسلمان کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو دشمنان اسلام کی سازشوں اور حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

تحریر: مصعب حبیب