counter easy hit

کراچی پیکیج ۔۔۔۔ امید کی کرن

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کا معاشی اور اقتصادی انجن بھی ہے۔ اسے شہر قائد ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہی شہر مملکت خداداد کا دارالخلافہ بھی قرار پایا۔ سچ پوچھیے تو وطن عزیز کا اقتصادی دارالحکومت آج بھی یہی ہے۔ پورے ملک کے 60 فیصد سے زائد محصولات یہی شہر فراہم کرتا ہے۔ کراچی ’’منی پاکستان‘‘ کہلاتا ہے۔

پورے ملک کی تعمیر و ترقی اور امن و استحکام کا انحصار بھی اسی شہر پر ہے۔ یہ شہر کیماڑی سے خیبر تک بہتری کا ضامن ہے۔ کراچی کو نظرانداز کرکے نہ تو ملک میں تبدیلی ممکن ہے اور نہ ہی پائیدار ترقی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ شہر اپنی تمام تر خوبیوں، اہمیت اور افادیت کے باوجود بعض سیاسی مضمرات کے باعث مدت دراز سے وہ توجہ حاصل کرنے سے محروم ہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ اس بدنصیب شہر کی مثال اس مظلوم گائے کی سی ہے جس کے دودھ سے تو ہر کوئی استفادہ کرنا چاہتا ہے لیکن جسے چارہ کھلانے کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی جس صوبے کا دارالحکومت ہے اس صوبے کی حکومت اس کے ساتھ مسلسل سوتیلے پن کا سلوک کر رہی ہے۔ اگرچہ اس شہر کے مسائل کے حل کی سب سے بڑی اور بنیادی ذمے دار صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر گزشتہ دس سال سے بھی زیادہ عرصے سے پیپلز پارٹی کے زیر قیادت صوبائی حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس شہر سے لاتعلقی کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے جو سراسر زیادتی اور بے انصافی ہے۔ اسی بے اعتنائی کی وجہ سے یہ شہر ایک لمبے عرصے تک بے امنی کا شکار رہا۔

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی مسلسل اور بے تحاشا کوششوں کے طفیل شہر کا امن بحال ہوا۔ کراچی جن شہری اور معاشرتی مسائل کا شکار ہے ان مسائل کا صرف اس شہر سے نہیں بلکہ پورے ملک کے امن و استحکام کے ساتھ بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ افسوس کہ حکومت نے کراچی کے مسائل اور تعمیر و ترقی پر مطلوبہ توجہ نہیں دی۔ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے کراچی شہر کے ٹریفک کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے گرین لائن بس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔

سابقہ دور میں اس منصوبے پر زور و شور کے ساتھ کام شروع بھی ہوا مگر حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ کام سست روی کا شکار ہوگیا۔ جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ سچ پوچھیے تو شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ کبھی اس شہر کی سڑکیں صبح شام دھلا کرتی تھیں مگر یہ ماضی بعید کا قصہ ہے جسے سن کر یقین نہیں آتا۔ کراچی کی سڑکوں کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ بے مثال میٹروپولیٹن شہر خوباں ہے اور ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔مگراس شہر کی سڑکیں موئن جو دڑو کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔

گلی کوچوں میں گٹر ابل رہے ہیں اور جا بجا کچرے کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ گندگی و غلاظت نے پورے شہر کو ’’مچھر کالونی‘‘ میں تبدیل کردیا ہے جس کے باعث طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور صحت کے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام ٹھپ ہونے کے نتیجے میں پورا شہری نظام معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ نہ تو مجسٹریسی نظام کام کر رہا ہے اور نہ ہی بلدیاتی ادارے کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

پانی کا مسئلہ بھی سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ بیشتر علاقوں میں 8 سے 10 گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جب کہ گرمیوں کے موسم کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔ ان حالات نے پورے شہر کو شہرناپرساں بنادیا ہے۔ ان مایوس کن حالات میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کراچی کی ترقی کے لیے 162 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان امید کی ایک روشن کرن ہے۔ وزیر اعظم نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بالکل بجا کہا ہے کہ کراچی کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ اس شہر کی ترقی پورے پاکستان کے لیے ضروری ہے۔

انھوں نے کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کیا کہ یہاں ترقی کے عمل رکنے کا نقصان پورے ملک کو ہوا ہے۔ انھوں نے عندیہ دیا کہ کراچی کا جلد ہی ماسٹر پلان تیار کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے اعلان کردہ پیکیج میں 18 منصوبے شامل ہیں جو زیادہ تر ٹرانسپورٹ اور سیوریج کے شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں صفائی کے نظام کی بہتری اور تعمیر و بحالی کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے انتہائی اپنائیت اور ہمدردی کے احساس کا اظہار کیا۔

وزیر اعظم نے گرین لائن بس منصوبے پر بھی بھرپور توجہ دینے کا عندیہ دیا۔ کراچی کے مسائل میں وزیر اعظم عمران خان کی دلچسپی لائق تحسین اور امید افزا ہے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت نے اس پیکیج کے ذریعے شہر قائد کے مسائل کا احساس کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان واقعی تہہ دل سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے عقیدت مند اور پیروکار ہیں۔ اگرچہ کراچی شہر کی تیز رفتار وسعت اور روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف نظر آرہا ہے۔ تاہم کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔

اس پیکیج کے نتیجے میں سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے گمبھیر مسائل حل ہونے کے علاوہ چند اور بنیادی مسائل بھی حل ہوجائیں گے جن کی وجہ سے کراچی کے شہری بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان منصوبوں پر فوری عملدرآمد شروع ہوجانا چاہیے۔ لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ اعلان سے آگے نہ بڑھا تو نہ صرف شہر کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہوجائیں گے بلکہ کراچی کے شہریوں کی مایوسی بڑے پیمانے پر بے چینی کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے مضمرات کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ بے شک مایوسی کفر ہے اور امید پہ دنیا قائم ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ:

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

انشا اللہ! کراچی پیکیج پر بلاتاخیر عمل درآمد کے ساتھ کراچی کی تعمیر و ترقی اور شہر کے مختلف مسائل کے حل کا باقاعدہ عمل شروع ہوجائے گا۔ تاہم کراچی پیکیج کے اعلان کے موقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ کی عدم موجودگی انتہائی افسوس ناک ہے۔ کاش کشادہ دلی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم موقعے پر انھیں بھی مدعو کرلیا جاتا۔ سندھ حکومت کو کراچی کے معاملات میں نظرانداز کرنا نہ تو کراچی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی وفاق کے مفاد میں ہے۔ اس لحاظ سے سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم سے گلہ بالکل بجا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی قائدین ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اغراض سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملائیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔