counter easy hit

کشمیر کی آزادی کا متبادل راستہ

پچھلے دو کالموں میں کشمیر تنازعہ کی ابتداء ‘سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 47 اور اس کے بعد کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی تکرار چھوڑ کر کشمیر کی آزادی کے لیے دیگر متبادل راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔ دو طریقے مناسب لگتے ہیں‘ ایک میری تجویز ہے اور ایک آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی۔ دونوں تجاویز کا جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

میری رائے میں۔ ہمارے ہاں ایک مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد ہندوستان کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا لازمی ہے‘ اس مکتبہ فکر کی رائے میں یہ مذاکرات وغیرہ کی باتیں دھوکا اور لاحاصل فضولیات ہیں‘کشمیر صرف جہاد کی برکت سے آزاد ہوگا‘ کشمیر کی آزادی کے بارے میں یہ ایک نقطہ نظر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم 70 سال کی چیخ و پکار‘تین بڑی جنگوں اور جہادی راستے سے کیا حاصل کرسکے ہیں؟کیا کوئی تھانہ یا ایک چوکی یا کوئی ایک مربع گز کی زمین ہمارے ہاتھ آئی ہے؟اس لیے کشمیر کی آزادی کے دوسرے آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے ۔

میرے خیال میں کشمیر کی آزادی کا ایک اور بہتر راستہ بھی ہو سکتا ہے‘جو اگرچہ طویل ہوگا لیکن کامیابی کے چانسز اس میں زیادہ ہیں۔ہماری حکومت اور حریت کانفرنس کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کے 80 سے 90 فی صد باشندے بھارت کے ساتھ رہنے سے انکاری ہیں‘اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر ‘آزادی کے لیے پرامن ذرایع سے جدوجہد کا راستہ بہترین راستہ ہے۔اس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ جولائی کے بعد ‘جب کشمیریوں کی جدوجہد پرامن تھی‘ تو پاکستان بھی ‘اخلاقی برتری کے ساتھ ‘جارحانہ انداز میں ان کا مقدمہ ہر فورم پر پیش کرتا رہا اور بھارت مدافعانہ انداز میں آگیا تھا‘ لیکن بعد میں حالات تبدیل ہوئے اور دہشت گردی کا بیانیہ پروان چڑھا، اب ہر دہشت گرد حملے کے بعد‘ہندوستان مدافعانہ انداز کے بجائے جارحانہ انداز میں آجاتا ہے اور پاکستان مدافعانہ انداز پر‘پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف ہے اور پاکستان تو خود اس کا نشانہ بن رہاہے۔

جب کشمیری پرامن جدوجہد کریں گے ‘تو پاکستان کے لیے بھی ان کی اخلاقی مدد آسان ہوگی‘ اگر کشمیر کے عوام انتخابات میں حصہ لیں‘اسمبلی میں اکثریت حاصل کریں اور اسی تناسب سے اسمبلی میں پہنچیں ‘تو نقشہ ہی بدل جائے گا‘ اس اعتراض میں زیادہ وزن نہیں کہ دھاندلی کے ذریعے اپنے کٹھ پتلیوں کو انتخابات میں کامیاب کرادیا جاتا ہے‘ اس لیے آزادی کے متوالوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا‘ فرض کریں کہ اس اعتراض میں وزن ہو‘ لیکن اگر نوے فی صد اکثریت‘ ڈٹ جائے تو ان کو شکست دینا آسان نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ سے بھی مبصّر بھیجنے کی بات کی جا سکتی ہے۔

بائیکاٹ کے عمل سے آزادی چاہنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا‘جب منتخب اسمبلی سے خود مختاری یا آزادی کی آواز اٹھے گی تو اس کا زیادہ اثر ہوگا‘اسمبلی کے ذریعے ہرقسم کی پرامن جدوجہد کی جا سکتی ہے ‘ تشدد آمیز مظاہروں یا دہشت گردی کے واقعات سے کشمیریوں کی جانوں اور مال کا ضیاع بھی ہو رہا ہے لیکن پھر بھی کامیابی  یقینی نہیں ‘ منتخب قیادت کی طرف سے پر امن جدوجہد طویل ہو سکتی ہے لیکن کامیابی یقینی ہے۔

ریاستی منتخب اسمبلی کی‘ہندوستان سے آزادی کی قرار داد ہندوستان کے لیے سخت تکلیف دہ ہوگی ‘عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی بڑی سبکی اور بدنامی ہوگی‘ کیونکہ دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ‘نوے فی صد عوام کی نمایندہ آواز کو فوجی بوٹوں سے بھی نہیں دبایا جا سکتا ‘آج کے دور میں عوام ایٹم بم سے بھی زیادہ ‘موثر اور طاقتور ہیں‘ویت نام میں امریکی شکست اور سوویت یونین کا انہدام جنوبی افریقہ اور ہندوستان کی آزادی‘عوامی طاقت اور پرامن جدوجہد کی مثالیں ہے۔

سوویت یونین سے سینٹرل ایشیائی ریاستوں کو آزادی اسمبلیوں کی قراردادوں سے ملی ‘مشرقی تیمور اور کسووو میں بھی یہی ہوا‘یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جہاں جمہوری جدوجہد کا راستہ ہو‘ وہاں تشدد سے گریز کیا جائے‘ موجودہ دور میں مسلم یا غیر مسلم پر تشدد تحریکوں کو عالمی اور مقامی دونوں طرف سے کم حمایت ملتی ہے اور ان کی کامیابی نا ممکن ہوتی ہے ‘اگر اس راستے سے کامیابی ملے تو پھر ہندوستان یا پاکستان کے علاوہ تھرڈ آپشن کے طور پر آزاد اور خود مختارکشمیر کا آپشن بھی ہوسکتا ہے۔

گاندھی‘نہرو‘ ابوالکلام آزاد اور باچا خان جیسے رہنماء ہمیشہ جیلوں میں بند رہے لیکن آزادی کی پرامن تحریک چلتی رہی ‘نیلسن منڈیلاکو تو اس وقت جیل سے چھوڑنا پڑا ‘جب کہ نسل پرست حکومت کے خلاف پوری دنیا آواز بلندکر رہی تھی ‘ ہندوستان میں کانگریس اور جنوبی افریقہ میںافریقن نیشنل کانفرنس نے آزا دی کی پوری جنگ عدم تشدد کے ذریعے لڑی‘قید و بند اور حکومتی ظلم اور زیادتی برداشت کی لیکن اپنی طرف سے کبھی تشدد نہیں کیا ‘بھگت سنگھ جیسے انقلابی بھی تھے لیکن ان کا طرز سیاست ‘قبول عام حاصل نہ کرسکا ۔

دوسرا راستہ جنرل (ر)اسد درانی کا تجویز کردہ ہے۔ اپنی کتاب میں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور نہ ہی بھارت پورا کشمیر لے سکتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ سکتے ہیں‘منقسم یا مشترکہ طور پر زیر انتظام کشمیر کے بجائے ‘یا کسی اور فارمولے کے بجائے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر عمل کرنا ہوگاکہ ’’جتنا لے سکتے ہو لے لو‘‘۔جنرل درانی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے لیے موزوں نعرہ’’تنازع سے تعاون‘‘ہو سکتا ہے ‘ جنرل درانی کے مطابق مسئلہ کشمیر کاکوئی براہ راست حل موجود نہیں‘منقسم یا مشترکہ زیر انتظام کشمیر کے بجائے یا زیر بحث کسی اور فارمولے کے بجائے بالواسطہ طور پر کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا‘جس میں چھوٹے چھوٹے اقدامات ‘جیسا کہ بس اور تجارت‘سے شروعات کرنا ہوگی۔