counter easy hit

12 مئی کے بعد کا کراچی

بارہ مئی 2007ء ہفتے کا دن چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد پر ان کا استقبال کرنے کا دن تھا۔ جب ایک منصف کو انصاف کیلئے عوامی عدلت کا سہارا لینا پڑا۔ سارے ملک کے وکیل چیف جسٹس کے ساتھ قدم سے قدم ملائے کھڑے تھے۔ یہ وہ دن تھا جب انہیں کراچی میں وکیلوں سے خطاب کرنا تھا۔ان دنوں کراچی میں ایم کیو ایم لندن سے براہ راست کنٹرول ہوا کرتی تھی۔ ابھی فاروق ستار اور دیگر گروپ وجود میں نہ آئے تھے۔ ابھی بانی ایم کیو ایم کے ایک دو تین کہنے پر جناح گراؤنڈ میں سارا مجمع خاموش ہو جایا کرتا تھا۔گیارہ مئی کی رات سے ہی شہر بھر میں موت کا سناٹا طاری تھا۔ ابھی صبح ہی تو میں کراچی کے مقامی ٹی وی چینل پر صبح آٹھ بجے اپنا لائیو پروگرام کرکے اٹھا تھا۔ جس میں فقط پچاس افراد کی ہلاکت کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔ وہ بھی اگر تصادم ہو گیا تو لوگوں کی تعداد کم از کم پچاس ہوگی۔ کیا خبر تھی میری وہ پیشن گوئی درست ثابت ہوگی۔
ان دنوں میرے یہاں صرف اخبار آیا کرتا تھا، کیبل ٹی وی تو تھا نہیں۔ یہ الگ بات کہ میں ٹی وی پر ان دنوں پروگرام بھی کر رہا تھا۔ جمعہ کا روز گزر گیا۔ صبح ہفتہ بارہ مئی تھی۔ ہفتہ اتوار پروگرام نہیں ہوتا تھا تو صبح آرام سے جاگا کیونکہ ان دنوں شہر میں ہڑتال یا ہنگاموں میں لوگ آرام ہی کیا کرتے تھے۔ان دنوں میں ٹی وی کے ساتھ ایک این جی او کے ساتھ بھی کام کرتا تھا اور اخبار کیلئے ہفتہ وار کالم بھی لکھتا تھا۔ تیرہ مئی کو مجھے اسلام آباد این جی او کی آٹھ روزہ ٹریننگ میں شرکت کرنا تھا۔ میرا ٹکٹ بن چکا تھا۔ اگر رہ جاتا تواین جی او کی نوکری بھی جاتی اورچلا جاتا تو ٹی وی کا پروگرام ہاتھ سے جاتا تو سوچا ٹی وی والوں نے کب وقت پر پیسے دینے ہیں، صرف شہرت سے پیٹ تو نہیں بھرتا ورنہ میں تین کام ایک ساتھ کیوں کرتا بھلا۔تیرہ مئی اتوار گھر کے باہر سڑک پر ٹیکسی یا رکشا کا انتظار میں خاصا وقت گزرا۔ کوئی ایئرپورٹ جانے کو تیار ہی نہ تھا، گویا بارہ مئی کا خوف ابھی باقی تھا۔ ابھی سڑک کنارے کھڑا تھا کہ سامنے واقع گھر سے میرے واقف فیضی بھائی اپنی موٹر سائیکل پر نکلے۔ مجھے سڑک پر کھڑے دیکھا اور ساتھ بیگ رکھا دیکھا تو قریب آئے اور پوچھا، کہاں کا ارادہ ہے۔ ان کو بتایا تو بولے میں ایک اور کام سے جا رہا ہوں۔ چلو تھوڑا آگے چھوڑ دیتا ہوں۔ کوئی ٹیکسی یا رکشا مل جائے گا۔ یقین کریں کہ ہم ایئر پورٹ جا پہنچے مگر راستے میں کسی بھی ٹیکسی اور رکشے نے خوف کے مارے ایئرپورٹ جانے کی حامی نہ بھری۔

فیضی بھائی گویا میرے لئے تو اس لمحے فرشتے سے کم نہ تھے جب سارا شہر خوف کے عالم میں تھا وہ ایک شخص مجھے جان کی بازی کھیل کر اپنے ساتھ لے گیا۔ میرا صحافتی کارڈ کئی جگہ کام آیا۔ ہر جگہ پولیس نے روکا بھی اور ہم رکے بھی۔ ایئرپورٹ پر پہنچ کر میں نے فیضی بھائی کو اپنا صحافتی کارڈ تھمایا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں، کوئی مسئلہ ہو تو دکھا دیں۔ یوں میں اسلام آباد چل پڑا۔پڑی رہیں لاشیں راہوں میں
نہ ملے اماں بانہوں میں
گھومتی رہے موت نگاہوں میں
کرتے رہیں دفن آہوں میں
ڈوبا ہے لہو میں شہر
بہتی ہے خون کی نہر
قتل ہے انسان کا حرام
پیتا ہے قاتل خونی جام
بگڑ رہے ہیں حالات مزید
کھلے پھر رہے ہیں یزید

کلام راجہ کاشف جنجوعہذہن ایک ہی بات سوچتا ہے کہ ہم نے بارہ مئی سے کیا سیکھا۔ کیا انداز ِحکمرانی تبدیل ہو گیا یا اس کے بعد وکیل گردی جیسی اصطلاح بھی ہمارے سامنے آئی۔ ہر ادارہ اور ہر جماعت اپنے اندر سے تشدد پسند افراد کو ابھرنے سے نہ روک سکا۔ کسی دور میں طالب علم جماعتیں درس گاہوں میں تشددپسندی کی علامت ہوا کرتی تھیں۔ مگر پھر کیا ہوا نہ وکیل بچے اور نہ کوئی جماعت۔ اس بارہ مئی کے بعد تو سب ہی تشدد پسند ہوگئے۔ ہمیں اس تشدد پسندی کو اپنے ذہنوں میں سے نکال پھینکنا ہوگا ورنہ سارا معاشرہ برباد ہو جائے گا۔ سوچئے گا ضرور۔