counter easy hit

ایک حبس ہے، زندانِ مذاہب میں بلا کا!

اس معاشرے کا اگر انسان نقشہ کھینچنے کی کوشش کرے تو ایک نہایت ہی بھیانک نقشہ ہو گا جو حاصل ہو گا۔ ہر شخص  دوسرے شخص سے زور آزما ہے۔ محبت، امن اور سکون دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔ نظریاتی اختلاف تو ہر معاشرے میں ہوتا ہے لیکن اس اختلاف کے باعث کبھی رویّوں میں نفرت نہیں آیا کرتی۔ دنیا میں دوستیاں تو مذہب، رنگ ، نسل ہر قسم کی تفریق سے مٹا کے کی جاتی ہیں اور نبھائی جاتی ہیں مگر کیا کہنے اس ریاست کے۔ جہاں دوستیاں، رشتے، کرنے سے پہلے متبادل فرد کا فقہ، برادری، ذات، قومیت دیکھی جاتی ہے۔ اور تو اور ہمارے ہیں خود کو عقل کُل سمجھنے والے لوگ ہر انسان کی کارکردگی کو اس کے مذہب کے ترازو میں تولتے ہیں۔ کیا عبدالسلام تو کیا سر ظفر اللّٰہ خان۔ ایک منظم کمپین محض کسی کے مذہب کی بنیاد پر فوراََ سے قبل چلا دی جاتی ہے اور کیا کہنے اس قوم کے، جس شخص کا آپ دلیل و منطق سے مقابلہ نہ کر سکو، اس کے خلاف چند لفظوں کا فتویٰ دے دیا جاتا ہے۔ پھر ایک ہجوم جانے اور وہ شخص جانے۔ حیرت کا مقام ہے، مسجد خدا کا گھر جہاں رحمان اور رحیم سے زیادہ کافر کافر کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ عدم برداشت تو اس قوم ۔۔۔۔ بلکہ ہجوم کی رگ رگ میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے، چھوٹے چھوٹے تنازعوں پر بندوقیں چل جاتی ہیں۔ ممبر پر بیٹھا ایک شخص فتویٰ دیتا ہے اور ایک ہجوم اس شخص کو سنگنسار کر کے جنت کمانے پہنچ جاتا ہے۔ مسجد کو دوکان بنا دیا ہے، جنت کو ڈی۔ ایچ۔ اے یا بحریہ کا پلاٹ سمجھ لیا ہے، کہ جلدی جلدی اس کو بیچیں اور اپنا کمیشن حاصل کریں۔ صد افسوس، انسان انسان کا رتبہ کیا پہچانتا انسان تو خدا کو بھی نہیں پہچان پایا۔۔۔۔۔

سیاست دنیا بھر میں کی جاتی ہے اور ایسی کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ الزامات لگتے ہیں، کیچڑ بھی اچھالا جاتا ہے۔ لیکن کبھی مذہب کی نام پر کہیں سیاست نہیں ہوتی۔ ہر الزام لگاتے ہیں لیکن کبھی مذہبی مسائل کو گیم اسکورنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا کیوں کہ انہیں ادراک ہوتا ہے کہ یہ وہ آگ ہے جو محض مخالف فریق کا گھونسلہ نہیں جلائے گی بلکہ آپ کے آشیانے کو بھی جلا کر خاکستر کر دے گی۔ لیکن اس مملکت خداد کی سیاست تو نفرت کی غلاظت سے لتھڑی ہوئی ہے۔ کیا کوئی مذہبی معاملہ۔ ہمارے ہاں تو سیاسی شخصیات قصور کی ننھی زینب کے جنازے تک کو نہیں بخشتیں۔  وہ وہاں اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ جب ایک بل ایک مسلمان ہی اسمبلی میں پیش کرے اور مسلمان ہی اس بل کو منظور کریں لیکن اس کے پیچھے سازش جنابِ والا احمدیوں کی ہوتی ہے۔ اسی ملک میں ایک انتہا پسند افراد کا ٹولہ فیض آباد آ کر دھرنا دے دے اور کئی لاکھ لوگوں کی زندگی مفلوج کر دے ۔ اور ممبر پر بیٹھا ایک جنونی شخص ہر شخص کو اباؤ اجداد سمیت گالیاں بکتے رہے۔ مگر حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اسی دھرنے پر جب رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں تو عدالت انہیں غیر تسلی بخش قرار دے دے۔ اور سپریم ادارے اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں۔ مقتدر اداروں کو کہا جائے کہ ان کے خلاف کاروائی کریں تو عدالتی فیصلوں کے عقب میں راہ فرار تلاش کرتے ہیں اور سونے پر سہاگہ ریاست کی رٹ کو چلینج کرنے والوں کو ہزار ہزار روپوں کے لفافے دئیے جاتے ہیں۔ جب لال مسجد کے ایک خطیب یہ دعائیں کروائیں، “یا اللّٰہ! داعش، طالبان اور حکومت پاکستان کو ایک کر دے۔” اور حکومت محض سوچ میں ڈوبی رہے اور تو اور وزیرِ داخلہِ وقت جا کر ان سے ملاقاتیں کرتے رہیں۔ جب ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کو محض اس کے نظریات کی بناء پر لاہور کے بھرے چوک میں ایک وحشی قتل کر دے اور کسی سیاسی جماعت و رہنما کی کھل کر بات کرنے کی جرات نہ ہو تو اس کا نوحہ کن الفاظ میں لکھا جائے۔ ایک جج جن کی توہین ان کے نام لینے سے ہو جاتی ہے اور وہ ماضی میں عبدالعزیز جیسے وحشیوں کے مقدمے بھی لڑتے رہے ہیں۔ وہ جب اس قادری کو دہشت گرد ڈکلئیر کرنے سے منع کریں۔ (جب ایک ذہنی مریض ممبر پر بیٹھ کے انہی ججوں کو دنیا بھر کی گالیاں بکیں تب صم بکم کی مکمل تصویر بنے رہیں) مذہبی جذبات اکسانے کے لئے انتہا پسندانہ ریمارکس دیں۔ اور اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے شخص کا داماد اور مستقبل کی وزیر اعظم بننے کی خواہش مند خاتون کے شوہر اور وفاقی وزیر اس قاتل کے ماتھے چومیں اور چند انتہا پسند دانشور اسے شہید لکھیں۔ راولپنڈی کے ایک سیاستدان جو ہر شخص کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لے چکے ہیں، آج کل عمران خان کے جلسوں میں رونق میلہ لگانے پہنچ جاتے ہیں، وہ جب اس قاتل کو سیاسی قوت کہیں اور سرعام کہیں۔ فیض آباد والوں کا استقبال کریں۔ جب سیال شریف سے آکر ڈیرہ ڈالنے والے پیر فقیر کے آگے وزیر اعلیٰ بچھ بچھ جائیں۔ جب خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے واے شخص کے خلاف محض اس لئے کارروائی نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق ایک خاص مذہبی ماحول سے ہے۔ جب کیپٹن صفدر جیسے لوگ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کریں اور اس کے اگلے ہی روز ربوہ میں دو احمدی مار دئیے جائیں۔ جب عبدالسلام کا نام اس ادارے سے ہٹوانے کی کوشش کریں (گو کہ اپنی کم عقلی کی بدولت کسی دوسرے ادارے کا نام بدل دیں، فعل کے پیچھے سوچ تو وہی گھٹیا کارفرماں ہو)، جس ادارے کی خدمت کی وجہ سے اس پاکستان کو اپنا پہلا نوبل انعام ملا۔ اور دوسری جماعتوں کے لوگ بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالیں۔اور حکومتی ارکان چپ چاپ بیٹھے رہیں۔ جب کچھ انتہا پسند ہر چیز کے پیچھے سے ایک یہودی و احمدی سازش نکال کر لے آئیں۔ جب ہر ایک صورت سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی جائے تب وزیرِ داخلہ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا ہے، تو آپ حیرت زدہ کیوں ہیں؟

ہمیں بحیثیت قوم ایسے لوگوں کا سدباب کرنا ہو گا، مذہبی مسائل کو اپنی سیاست دور رکھنا ضروری ہے۔ لازم ہے کہ اس کا ادراک تمام سیاستدان کر لیں وگرنہ یہ آگ ہر گھر میں پہنچے گی اور کسی کو نہیں بخشے گی۔ کیونکہ جنگ کا آغاز آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس کا اختتام قسمت یا تباہی کیا کرتی ہے۔

بقول شاعر،

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

کیسا عاشق ہے ترے نام پہ قرباں ہے مگر

تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے

ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے
اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے