counter easy hit

بریکنگ نیوز: بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد کیس کا فیصلہ کب سنانے والی ہے ؟ بھارت سے تازہ ترین خبر

نئی دہلی (ویب ڈیسک) انڈیا کے سپریم کورٹ میں ملک کے سب سے پرانے اور طویل عرصے سے چلے آ رہے مذہبی تنازع کے مقدمے کی سماعت کا آج آخری دن ہے۔انڈین عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ بابری مسجد، رام مندر تنازع کے تینوں فریقین اپنے اپنے دلائلنئی دہلی سے نامور صحافی شکیل اختر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔

۔۔ آج شام تک مکمل کر لیں۔یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس دیرینہ اور مذہبی اعتبار سے انتہائی حساس مقدمے کا فیصلہ چیف جسٹس رنجن گوگئی 17 نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل کسی بھی دن سنا سکتے ہیں۔اس تنازع پر الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی آئینی بنچ کر رہا ہے۔اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس رنجن گوگئی خود کر رہے ہیں۔ آج عدالت میں سماعت کا 40واں دن ہے اور اب سبھی کو فیصلے کا انتظار ہے۔مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیا میں سنہ 1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔بہت سے ہندوؤں اور ہندو مذہبی رہنما‌‍‌‌ؤں کا دعویٰ ہے کہ کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیا میں ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی۔ان کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ہی بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی اور اس لیے مسجد کی زمین کی ملکیت مندر کی ہے۔یہ تنازع 19ویں صدی میں انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس سنہ 1885 میں فیض آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا۔اس وقت کمشنر نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا

۔آزادی کے بعد دسمبر 1949 کی ایک رات بابری مسجد کےدرمیانی گنبد کے نیچے مبینہ مندر کے مقام پر بگھوان رام کی مورتی رکھ دی گئی۔کشیدگی کے ماحول میں اس مسجد پر تالا لگا دیا گیا اور وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی مسلمانوں نے مسجد میں مورتی رکھے حانے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی اور وہاں سے مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کیا۔سنہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد کے توسط سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہوئی۔چھ دسمبر 1992 کو اسی تحریک کے تحت ایودھیا میں جمع ہونے والے ہزاروں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا اور اس منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر دوبارہ مورتیاں نصب کر دیں گئیں اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا۔اس وقت سپریم کورٹ نے اس متنازع مقام کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کیا تاکہ حالات مزید کشیدہ ہونے کے بجائے جوں گے توں رہیں۔عارضی مندرمیں ہندو عقیدت مندوں کو پوجا کی اجازت ہے۔مسجد کی جس زمین پر تنازع ہے اس رقبہ 2.77 ایکڑ ہے۔ مسجد کے انہدام کے بعد مرکزی حکومت نے متنازع مقام کے تحفظ کے لیے اس مقام کے اطراف کی 67 ایکڑ اضافی زمین اپنی تحویل میں لے رکھی ہے۔اس مقدمے میں تین فریق ہیں۔مسلمانوں کی جانب سے سنی وقف بورڈ جبکہ ہندوؤں کی جانب سے ایودھیا کا نرموہی اکھاڑہ اور رام جنم بھومی نیاس اس مقدمے کے فریق ہیں۔

اس مقدمے کے فیصلے میں سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 7.2 ایکڑ کی متنازع زمین تینوں فریقوں میں برابر برابر تقسیم کر دی تھی۔تینوں ہی فریقوں نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت عظمی آج بدھ کے روز اس اپیل کی سماعت مکمل کر رہی ہے۔سپریم کورٹ نے ‏اپیل کی سماعت شروع کرنے سے قبل اس تنازع کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ رواں برس کے اوائل میں سپریم کورٹ کے ایک سبکدوش جج ایف ایم آئی خلیف اللہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔یہ کمیٹی تینوں فریقوں سے کئی مہینے کی بات چیت کے بعد اس پیچیدہ معاملے کو ثالثی کے ذریعے حل کر نے میں ناکام رہی تھی۔لیکن گزشتہ مہینے اچانک ثالثی کرنے والی کمیٹی نے دوبارہ ثالثی کی کوشش کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت مانگی۔انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی چند خبروں کے مطابق اس تنازعے پر ثالثی کے ذریعے فریقوں میں مصالحت ہو گئی ہے۔ان خبروں کے مطابق مسلم فریق یعنی سنی وقف بورڈ بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ سمجھوتے کا خاکہ ثالث کمیٹی نے سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ثالثی کی بات چیت اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو رازداری کے ساتھ مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اس لیے اس خبر کی کہیں سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعے نے انڈیا کی سیاست پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔اس تحریک سے ملک میں ہندو قوم پرستی کو ہوا ملی اور اسی کے زور پر بھارتیہ جنتا پارٹی شمالی انڈیا کی ایک چھوٹی سے سیاسی جماعت سے ابھر کر ایک ملک گیر جماعت بنی، اقتدار میں آئی اور کانگریس کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آج ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔بابری مسجد کے انہدام اور اس کی بحالی کی تحریک نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ہوا دی۔ تقسیم ہند کے بعد یہ دوسرا ایسا واقعہ تھا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے رشتوں میں گہری خلیج پیدا کی۔بابری مسجد، رام مندر کا فیصلہ ثالثی سے ہو گا یا ‏عدالت عظمی کے فیصلے سے اس کے بارے میں اس مرحلے پر کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہو گی۔لیکن سپریم کورٹ اپنا فیصلہ ثبوتوں اور فریقوں کی دلیلوں کی بنیاد پر کرے گا۔ عدالت عظمی کا فیصلہ کیا ہو گا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو گا اس کا ملک کی سیاست اور عوام کی نفسیات پر بہت گہرا اثر مرتب ہو گا۔

indian, supreme, court, to, announce, Babri Mosque, Case, Decision, soon, after, all, muslims, and, hindus, are, awaiting, the, saved, dicision, of, case

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website