counter easy hit

بھارت باز نہ آیا، چوری چھپے چینی سرحد پر بھاری ہتھیار اپاجی ہیلی کاپٹرز جمع کرنا شروع کردیا


اسلام آباد(یس اردو نیوز) بھارت نے چین کے ساتھ مشرقی لداخ میں کشیدگی کے پیش نظر لڑاکا طیارے، جنگی ہیلی کاپٹرز اور دیگر فوجی سازو سامان چین سے ملحقہ ایئر بیسز پر بھیج دیے ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کی فوج چین کی کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی کا بھرپور جواب دے گی۔امریکی خبررساں ادارے کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاؤ لی جیان نے ہفتے کو نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ اب کوئی بھی بھارتی فوجی ان کی تحویل میں نہیں ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اب پوری گلوان وادی کا کنٹرول چین کے پاس ہے۔ بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق خلیج بنگال میں بھی اضافی جنگی بحری جہاز روانہ کر دیے گئے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں جھڑپوں کے نتیجے میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کے باوجود سرحد پر تناؤ برقرار ہے۔ اطلاعات کے مطابق ‘اپاچی’ لڑاکا ہیلی کاپٹر بھی چینی سرحد کے قریب ایئر بیسز پر پہنچا دیے گئے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر ہوا سے زمین پر میزائل اور راکٹ فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کے ایک اعلٰی فوجی افسر نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ چین نے لداخ میں ہمارے 20 فوجیوں کو ہلاک کر کے ‘ریڈ لائن’ کراس کی ہے۔ لہذٰا اب بھارت کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی کا بھرپور جواب دے گا۔ بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ چین اب بھی مشرقی لداخ میں اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور ‘لائن آف ایکچوئل کنٹرول’ (ایل اے سی) پر نئی مورچہ بندی کی جا رہی ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نے جمعے کو آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ لیکن اب بھی اپوزیشن کے تحفظات برقرار ہیں۔ بھارت نے بلند مقامات پر فوجی اور جنگی سازو سامان کی ترسیل کے لیے شینوک ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹرز بھی لداخ بھجوا دیے ہیں۔ انڈین ایئر چیف راکیش کمار سنگھ نے بھی چند روز قبل لداخ کے علاقے لیہہ اور بھارتی کشمیر میں سرینگر کا دورہ کیا تھا۔ بھارت نے مگ 29، جیگوار فائٹرز اورسکھوئی-30 ساخت کے لڑاکا طیارے بھھی فارورڈ بیسز پر پہنچا دیے ہیں۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ سرینگر، لیہہ، آوانتی پور، بریلی، تیزپور سمیت دیگر ایئر بیسز کو بھی کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر متحرک کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ فوجی افسر سمیت 20 بھارتی فوجیون کی ہلاکت کے بعد مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔ بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ لداخ میں پیش آنے والے واقعات کے حقائق سامنے لائے جائیں۔ واضح رہے کہ دونوں ملکوں میں 3500 کلو میٹر طویل سرحد کی مستقل حد بندی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ مؤقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website