counter easy hit

نامور صحافی مظہر عباس کا عمران خان کو بڑے کام کا مشورہ

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان کے منتخب وزیراعظم جو خالصتاً عوامی ووٹوں سے جیت کر آئے ہیں ان کے بارے میں ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جو خود آمروں کے راستے اقتدار میں آئے، عمران خان نے تو اقتدار میں آنے کے لئے بائیس سال جدوجہد کی۔ عمران خان کسی کالج میں پروفیسر نہیں تھےنامور کالم نگار مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہاں سے سیدھے آ کر وفاقی وزیر بن گئے پھر ڈکٹیٹر کی آنکھوں کاتارا بن گئے، عمران خان کونسلر کا الیکشن بھی نہیں ہارے تھے، نہ ہی ناکام کرکٹر اور نہ ہی ناکام فلمی ہیرو،اور نہ ہی ایسے فرد کہ اچانک ایک فوجی آمر کی نظر کرم کے باعث ایک بڑے صوبے کے وزیر خزانہ بن گئے، نہ ہی عمران خان پر آئی ایس آئی سے پیسے لینے کا الزام ہے، نہ ہی عمران خان کو کسی نے آئی جے آئی جیسا اتحاد بنا کر دیا، عمران خان نہ ہی سیاسی قبروں کے مجاور ہیں، سو ایسے لوگوں کو جو خود ’’سلیکٹڈ‘‘ ہو کر آئے، عمران خان جیسا الیکٹڈ وزیراعظم چبھ رہا ہے، وہ جو بے ساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آیا کرتے تھے اب حیران و پریشان ہیں کہ اب ان کی باری کیسے آئے گی، اب تو ان کو سیاست میں لانے والے ڈکٹیٹر قبروں میں جا چکے ہیں، اب کسی کا ’’ڈیڈی‘‘ زندہ ہے اور نہ ہی ’’میری عمر لگ جائے‘‘ جیسی دعا دینے والا ۔ اس لئے ایسے لوگوں کے گھروں میں سوگ کی صف بچھی ہوئی ہے، صرف رونا دھونا ہے کیونکہ اب کوئی ڈکٹیٹر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آمروں کی پیداوار نے پاکستانی لوگوں کے لئے جدوجہد کرنے والے عمران خان کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی۔ 2013ء میں یہ کوشش کامیاب ہوگئی تھی مگر 2018ء میں یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی، شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عوامی سیلاب کو آخر کب تک روکا جا سکتا تھا۔ میرے خیال میں 2018ء میں بھی پی ٹی آئی کو کچھ سیٹوں پر الیکشن جان بوجھ کر ہروایا گیا،جیسے سندھ میں جی ڈی اے کو ہروایا گیا تاکہ طاقت کے اصل مراکز کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو کیونکہ انہیں بھاری مینڈیٹ وارے نہیں کھاتا۔اگرچہ اپوزیشن کی جماعتیں پہلے ہی دن سے عمران خان کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور ’’جگتو فرنٹ‘‘ بنا کر اسے ہٹانے کے لئے کوششیں کررہی ہیں، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو 2017ء تک عمران خان کو فیس بک کا وزیراعظم کہتے تھے اور اب قدرت کی مہربانی سے خود فیس بک پر پروگرام کر رہے یا اپنا موقف لکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست اپنی جگہ مگر عمران خان کو کامیاب حکمران بننے کے لئے تین رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ پہلے نمبر پر انہیں بیوروکریسی کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنا ہوگی۔ اس منہ زور گھوڑے کو جب تک قابو نہ کیا گیا یہ عمران خان کے ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ یوروکریسی میں ڈی ایم جی والے خود کو برہمن اور باقی افسران کو اچھوت سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو کامیابی پانے کےلئے ان برہمنوں کی گردنوں سے سریا نکالنا ہوگا مگر ان کے دائیں بائیں دو برہمن پوری آب و تاب سے براجمان ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں باقی سروسز کے لوگ ہمیشہ ان کے زیر عتاب رہتے ہیں، ڈی ایم جی کے کئی افسران نیب میں بھی ہیں،ڈی ایم جی افسران ہی زیادہ تر سیاستدانوں کو کرپشن کے راستے دکھاتے ہیں اور خود تو بہت ہی کرپشن کرتے ہیں۔ اگر نیب تحقیق کرے تو چیئرمین نیب کو اپنا موقف بدلنا پڑے گا کیونکہ پروجیکٹس میں سے 20 سے پچاس فیصدتک ہضم کرنا بیوروکریسی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، پاکستان کی عدالتوں اور موجودہ حکومت کو اس طرف بھی دھیان دینا ہوگا، انہیں سوچنا ہوگا کہ تقریباً بائیس سو سرکاری افسران کی دہری شہریت ہے، ان میں سے گیارہ سو افراد کا تعلق اس خاص بیوروکریسی سے ہے جو لوگوں کی تقدیروں کے فیصلے کرتے ہیں، دہری شہریت کے حامل افراد کرپشن یہاں کرکے پھر کسی اور ملک میں جا بستے ہیں، ان افسران سے کہا جائے کہ یا تو وہ دہری شہریت چھوڑ دیں یا پھر نوکری چھوڑ دیں۔ جو بیوروکریٹ بھی حکومتی ایجنڈے کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے اسے سائیڈ لائن کر دیا جائے۔ ڈی ایم جی کے علاوہ دوسرے گروپوں کے افراد سے زیادہ کام لیا جائے، انہیں اچھی جگہوں پر پوسٹنگ دی جائے اگر دہری شہریت نہ رکھنے کا اصول سیاستدانوں پر جائز ہے تو بیوروکریسی کو بھی اس اصول کے تابع کیا جائے، افسران کی اے سی آر کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے کیونکہ کئی سینئر افسران اپنے سے جونیئرز کو بلیک میل کرتے ہیں،بعض تو گالیاں دیتے ہیں، بعض خواتین کو ہراساں کرتے ہیں، اس سلسلے میں کئی ایک واقعات لکھ سکتا ہوں۔ عمران حکومت کے لئے دوسری بڑی رکاوٹ خود ان کے اپنے وزرائے اعلیٰ اور وزراء ہیں جو ان کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں ناکام ہو رہے ہیں، عمران خان خود ایوبی دور کی مثالیں دیتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایوب خان نے اپنے نیچے ملک امیر محمد خان جیسا سخت گیر گورنر رکھا ہوا تھا، اسی طرح بھٹو صاحب نے ملک غلام مصطفیٰ کھر جیسا سخت آدمی بڑے صوبے کو سنبھالنے کے لئے لگایا تھا، اب عمران خان کو خود جائزہ لینا چاہیے کہ انہوں نے جو بندے صوبوں کو سنبھالنے کے لئے لگائے ہیں کیا وہ اس کے اہل ہیں؟عمران خان حکومت کے لئے تیسری بڑی رکاوٹ بھی سیاسی نوعیت کی ہے۔ مرکز اور صوبوں میں مشیروں کی فوج ظفر موج عمران خان کے سیاسی معاملات کو نہیں سنبھال رہی، ان میں سے اکثریت تو ان لوگوں کی ہے جنہیں سیاست کی الف ب کا پتہ نہیں، پی ٹی آئی کے اتحادی روزانہ کی بنیاد پر بلیک میلنگ کرتے ہیں اور مشیر صاحبان کچھ بھی نہیں کرتے، سوائے دو تین مشیروں کے باقی پتہ نہیں کدھر سوئے رہتے ہیں، عمران خان کو اپنا ایجنڈا پورا کرنے کے لئے اور عوامی سطح پر عوامی بہتری کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے اپنے مشیروں کا جائزہ لینا ہوگا، انہیں چاہیے کہ وہ مغل بادشاہ اکبر کے مشیروں کے بارے میں مطالعہ کریں۔ بقول فرحت زاہد۔ ؎ یہ سیدھے راستے پر چلنے والوں کو خبر ہے۔