counter easy hit

اختیار ، اقتدار اور وسائل ۔۔۔ عمران خان کے پاس سب کچھ ہے مگر ایک چیز نہیں ، اور وہی ایک چیز ہی سب سے اہم ہے ۔۔۔۔ عاصمہ شیرازی نے حیران کن بات کہہ ڈالی

لاہور (ویب ڈیسک) اُمید اور ناامیدی کے درمیان فقط انتظار ہوتا ہے اور منتظر چہرے اضطراب کا شکار۔ اضطراب وہ واحد کیفیت ہے جسے جانچنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں۔ اضطرابی کیفیت میں امید کی کوئی اُمید نظر نہ آئے تو ہیجان جنم لیتا ہے اور ہیجان انتشار کا سبب بنتا ہے۔

نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔بہر حال کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت قوم کو معیشت کی بحالی کی اُمید ختم ہو رہی ہے اور اضطراب بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ ایک برس میں خود کو یقین دلاتے عوام امید اور نا امیدی کی کیفیت میں الجھتے چلے آ رہے ہیں۔ اعشاریے جیسے بھی ہیں دعوے جو بھی ہوں مگر سچ تو یہ ہے کہ عوام کی حالت دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کپتان کا جادو اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کے بعد سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تقریر کشمیر پر حاوی ہو گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سوال پھر جنم لے رہا ہے کہ ’اب آگے کیا۔۔۔؟‘ یہی وہ سوال ہے جس کا کوئی جواب کم از کم حکومت میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ وزیراعظم کے پاس سب کچھ ہے، اختیار، اقتدار، اسباب۔۔۔ نہیں ہے تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو چھومنتر کے ساتھ ہی پنجاب میں ناقص حکمرانی ٹھیک کر سکے۔ کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں کہ گھمائیں تو صنعتیں چل پڑیں۔ کوئی ایسا چراغ نہیں کہ گھسائیں تو دن بہ دن چڑھتے قرضے اتارنے کی سبیل ہو۔ کوئی ایسی پھونک نہیں جو بجھتے چراغوں کو روشنی دے، کوئی ایسا استخارہ نہیں جو بے روزگاروں کو روزگار دے، کوئی ایسا دم نہیں جو غریبوں کے بے جان جسموں میں دم ڈال دے۔ مشکل ہے تو اُن کے لیے جن کی آرزوؤں کا واحد مرکز اور امیدوں کا محور یہی چنیدہ حکومت ہے۔

اب کیا کیا جائے۔۔۔ جلائی ہوئی تمام کشتیوں کے سرے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ راندہ درگاہ ایک بار پھر نوازنے کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ نیب کی ستائی حزب اختلاف میں کہیں اُمید نے انگڑائی لی ہے لیکن نہ تو نواز شریف فی الحال باہر آنے کو تیار ہیں نہ ہی زرداری صاحب کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی لیے تاحال اُن کی جانب سے ضمانت کی کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ اخیر نومبر تک چھڑی نہیں ہلے گی لیکن دسمبر کے بعد چھڑی کو ہلنا تو ہے ہی۔ مولانا کے دھرنے نے جو سراسیمگی پھیلائی ہے اُس کا توڑ بھی ڈھونڈا جا رہا ہے۔ منتشر حزب اختلاف اور عدم کارکردگی دکھانے والی حکومت دونوں ہی درد سر بن رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی سیاست کی کمان کس کے ہاتھ ہے یہ بھی مسئلہ۔۔۔ اور حکومت کی کمان فرد واحد کے پاس ہے، یہ بھی مجبوری۔۔۔ اپوزیشن کے مطالبات بھی ناممکن اور حکومت کی خواہشات بھی لا محدود۔۔۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تناؤ، امریکہ، سعودی، ایرانی اور چینی دائرہ تنگ تو اندرونی محاذ پر صف آراء سیاسی طاقتیں، کہیں جیلوں کا دباؤ، کہیں باہر والوں کی طنابوں کو کھینچنے کی تگ و دو۔ غرض چارہ گر، کیا چارہ کریں۔۔۔ یہ ایک انوکھی صورتحال ہے۔ بہر حال اب گتھیوں کو سلجھانا تو ہے ہی۔ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کو اُمید دلانا ہے، کارکردگی دکھانی ہے، عوام کو نا امیدی سے بچانا ہے تاکہ ہیجان برپا نہ ہو اور انتشار سے بچا جا سکے۔۔۔ ڈور جن کے ہاتھ ہے انھی کو سرا ڈھونڈنا ہے، گیم جہاں سے الجھی ہے وہیں سے سلجھنی ہے۔۔۔ بہر حال وقت کم مقابلہ سخت ہے۔ اصل امتحان حکومت یا اپوزیشن کا نہیں فیصلہ سازوں کا ہے۔IMRAN KHAN, HAS, THE, MOST, IMPORTANT, THING, FOR, SUCCESS, ASMA SHIRAZI, COLUMN, IN, BBC

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website