counter easy hit

سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی فوری رہائی کیسے ممکن ہوئی؟

پاکستان اور اس کے عوام کیلئے اتنا کچھ کرنے کیلئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ۔ وزیراعظم عمران خان آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے دو مسلم برادر ممالک (سعودی عرب اور پاکستان) کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے تاریخی موقع فراہم کیا۔ کوئی شک نہیں کہ سعودی ولی عہد نے یہ کہہ کر پاکستانی قوم کے دل جیت لیے ہیں کہ ’’آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔‘‘اور جب وزیراعظم عمران خان نے ان سے درخواست کی کہ سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو رہا کریں تو سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’’ہم پاکستان کو انکار نہیں کر سکتے۔‘‘ سعودی عرب میں سفیر سمجھنے اور پاکستان کو انکار نہ کرنے کے ان کے بیان کے 24؍ گھنٹے کے اندر ہی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے قوم کو خوش خبری سنائی کہ سعودی ولی عہد نے 2؍ ہزار پاکستانیوں کی رہائی کا حکم دیدیا ہے۔

سعودی حکومت کی جانب سے پہلے ہی پاکستانیوں کیلئے ویزا فیس کم کر دی گئی ہے جبکہ شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر 20 ارب ڈالرز مالیت کے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔ پاکستانی معیشت کو درپیش مشکلات اور اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی درخواست کے بعد، سعودی عرب نے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کیلئے تین ارب ڈالرز کا نرم شرائط کا قرضہ بھی دیا اور استھ ہی تین سال کیلئے تین ارب ڈالرز مالیت کا تیل فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ صرف آج نہیں بلکہ ماضی میں بھی جب پاکستان کو کوئی مشکل پیش آئی، سعودی عرب نے سگے بھائی کی طرح مدد کی۔ پاکستان بھی سعودی عرب کا قابل اعتماد دوست رہا ہے اور اس کے ساتھ دفاعی اور سیکورٹی کے شعبے میں تعاون کی سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ تعریف کی ہے۔ مکّہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام نے ہمیشہ سے ہی سعودی عرب اور اس کے عوام کیلئے خصوصی طور پر محبت کا اظہار کیا ہے۔ پاک سعودی تعلقات کو ’’دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے‘‘ کے محاورے میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بات کا سہرا وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اقدامات کیے۔ تکلفات کا خیال رکھے بغیر اور کچھ سفارتی انتظامات اور پروٹوکول کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے، وزیراعظم نے ولی عہد کا استقبال غیر رسمی انداز سے کیا تاکہ وہ کچھ حاصل کیا جا سکے جو طویل سفارتی تبادلوں سے بھی حاصل کرنا مشکل ہوتا۔ جب سعودی ولی عہد نے کہا ’’سعودی عرب میں مجھے پاکستان کا سفیر سمجھیں‘‘ اور ’’ہم پاکستان کو انکار نہیں کر سکتے‘‘ ، اس وقت ان کی حرکات و سکنات (باڈی لینگوئج) سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور اس کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کی جانے والی مہمان نوازی اور شاندار استقبال سے متاثر تھے۔ یہ بہتر ہوتا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم نے ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر تقریبات میں سرکردہ اپوزیشن رہنمائوں کو بھی مدعو کیا ہوتا لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے اس ہائی پروفائل دورے کے نتائج بہت ہی شاندار رہے۔