counter easy hit

سیاست رنگ بدلتی ہے کیسے کیسے

سیاست کے رنگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں ۔کبھی دشمنوں کو بھی سینے سے لگایا جاتا ہے تو کبھی دوست احباب کی قربانی دی جاتی ہے  ۔کبھی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی بات کی جاتی ہے تو کبھی اداروں کےتقدس کو بحال رکھنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست ایک عبادت ہے لیکن  جب کسی سیاستدان کا کوئی  جھوٹ پکڑا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔

سیاستدان اکثر کہتے ہیں کہ سیاست کار وبار نہیں  مگر سیاست میں دولت ایسے کمائی جاتی ہے جیسے اس سے بڑا کوئی کاروبار نہیں ۔کبھی پارسائی دکھائی جاتی ہے تو کبھی ایک دوسرے کی عزتیں اتاری جاتی ہیں ۔دیکھا جائے تو سیاست میں سب رنگ نظر آتے ہیں ۔کبھی کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے تو کبھی سیاست کیلئے ختم نبوت ﷺ کے قوانین کو تبدیل کیا جاتا ہے ۔ یہ رنگ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتے  بلکہ کہانی بہت دور تلک جاتی ہے۔

اب سیاست کا ایک اور رنگ دیکھیں۔ محترم میاں شہباز شریف صاحب کو آئندہ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعظم منتخب کر دیا گیا ہے ۔ یہ بھی ایک سیاست کا رنگ اور سیاسی چال ہے۔ محترم میاں شہباز شریف صاحب مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔  اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اور میاں شہباز شریف کے صاحب کے حلقہ احباب میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ جو سیاستدان میاں نواز شریف صاحب کے نزدیک ہیں وہ سیاستدان میاں شہباز شریف صاحب کے نزدیک نہیں ہیں۔ اس وجہ سے میاں نواز شریف صاحب کے حامی سیاستدان کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ میاں شہباز شریف یا حمزہ شہباز کسی بھی صورت ملک کے وزیر اعظم بن کر ہمارے اوپر حکمرانی کریں۔

اگر تھوڑا سا ماضی میں دیکھا جائے تو کبھی حمزہ شہباز صاحب کو پاکستان کی سیاست میں پوری طرح سر گرم کر دیا گیا تھا اور ہر طرف یہ ہی تبصرہ ہو رہا تھا کہ حمزہ شہباز صاحب پاکستان کے آنے والے وزیر اعظم ہو نگے کیونکہ میاں نواز شریف صاحب کے بیٹوں نے سیاست میں آنے سے انکار کر دیا تھا ۔محترمہ مریم صفدر صاحبہ کا بھی سیاست میں دور   دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا ،اس لیے حمزہ شہباز صاحب کو ہر حلقے میں متعارف کروایاگیا ۔ حمزہ شہباز صاحب نے بہت اچھی الیکشن کمپین بھی کیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔ جب میاں نواز شریف صاحب کے حامیوں نے دیکھا کہ حمزہ شہباز کے آنے سے ہمارا مقام وہ نہیں رہے گا تو میاں نواز شریف صاحب کو محترمہ مریم صفدر کو سیاست میں لانے کا کہا  گیا۔ اس مشورے پر میاں نواز شریف صاحب بخوشی راضی ہو گئے  اور محترمہ مریم صفدر کو سیاست میں لانے کیلئے محترمہ مریم نواز بنایا دیا گیا۔

محترمہ مریم نواز کے سیاست میں آنے کے ساتھ ہی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف صاحبان کی فیملیز میں کافی زیادہ اختلافات ہوئےمگر میاں شہباز شریف صاحب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتے جس کی وجہ سے یہ ناراضگی ختم ہو گی ۔ حمزہ شہباز کو بھی راضی ہونا پڑا  اور وہ  اپنی وزارت عظمیٰ کی خواہش اپنے دل میں لے کر خاموش ہو گئے۔

پاناما کیس میں جب میاں نواز شریف صاحب کو نا اہل کیا گیا تو فوراً اعلان کیا گیا کہ میاں شہباز شریف صاحب کو 45 دن کے اندر الیکشن کروا کر وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا تھا، پھر سیاست نے رنگ بدلا اور محترمہ کلثوم نواز صاحبہ نے سیاست میں قدم رکھا اور محترم میاں شہباز شریف کی جگہ وزارت عظمیٰ کی امیدوار بن کر سامنے آئیں۔ اللہ ان کو لمبی زندگی دے اور ہر تکلیف سے محفوظ رکھے۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے عملی طور پر سیاست میں قدم نہ رکھ سکیں مگر ایم این اے کا الیکشن وہ محترمہ مریم نواز کی کمپین کی وجہ سے جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ اس موقع پر بھی شریف فیملی کے درمیان بہت زیادہ اختلافات ہوئے جس کی وجہ سے بہت سارے عوامل کی طرف سے یہ باتیں کیجانے لگی کہ میاں شہباز شریف صاحب کو اب اپنے بڑے بھائی کے سائے سے نکل کر سیاست کرنا ہو گی اور کہا جا نے لگا کہ میاں شہباز شریف صاحب محترم میاں نواز شریف صاحب سے اچھے سیاستدان ہیں۔

ان اختلافات کی وجہ سے دونوں فیملیوں کی طرف سے مختلف بیانات سامنے آئے۔محترم شہباز شریف صاحب کی فیملی کی طرف سے اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کو خطرناک قرار دیا گیا  جبکہ محترم میاں نواز شریف اور ان کے حامیوں کی طرف سے اداروں کے خلاف سخت سے سخت بیانات جاری ہوتے رہے ۔ اس سے پہلے کہ  میاں شہباز شریف صاحب کوئی بیان جاری کرتے تو اپنی خاندانی سیاست کو بچانے کیلئے سیاست نے ایک اور رنگ بدلہ اور محترم میاں شہباز شریف صاحب کوآئندہ وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر کے تمام سیاسی اختلافات کو ایک بار پھر ختم کر دیا گیا۔

مگر سیاست ایک بار پھر رنگ بدلے گی  کیونکہ میاں نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کے حامی کبھی بھی  میاں شہباز شریف صاحب کی وزارت عظمیٰ کو بر داشت نہیں کریں گے ۔ مگر سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ پاکستان کی سیاست جس طرح رات دن رنگ بدل رہی ہے  ان حالات میں کسی بھی چیز کی امید کی جا سکتی ہے۔

شریف برادران اس وقت سعودی عرب میں کس وجہ سے ہیں اس بات کا ابھی تک کسی کو کوئی علم نہیں ، شریف برادران کی طرف سے این آر او کی تلاش ہے یا کہ کوئی اور وجہ ہے ،۔کبھی کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کے تمام کیسز کو ختم کر کے مستقل طور پر جلا وطنی بھی قبول کی جا سکتی ہے۔ لگ رہا ہے کہ ایک مرتبہ  پھر سعودی عرب پاکستان کی سیاست میں کوئی رنگ ڈالنے والا ہے ۔ لیکن یہ معاملہ بھی اب اتنا آسان نہیں لگتا۔ ماڈل ٹائون حادثہ میاں شہباز شریف کے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے جو نہ اگلی جا سکتی ہے نہ نگلی جا سکتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحد ہو کرمیاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ صاحب کے خلاف ایک تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں ۔ سیاست کے اس رنگ میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ماڈل ٹاؤن کے مقتولیں کو انصاف دلانے کا اعلان کر دیا ہے ۔ اگر یہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو پھر میاں شہباز شریف صاحب اور رانا ثناء اللہ صاحب کواستعفی ٰدینے کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں ملے گا ۔ اب دیکھنا ہے کہ سیاست کیا رنگ بدلتی ہے ۔کیا پاکستان کی عوام کے رنگ بھی بدلیں گے 2018 ء میں یا کہ ہر سال کی طرح یہ سال بھی پاکستان کی عوام کو حسرتوں اور مایوسیوں میں ڈال کر گزر جائے گا۔

دعا ہے اللہ سے یہ سال پاکستان کی عوام کیلئے خو شیاں لے کر آئے (آمین)