counter easy hit

وہ لہو جو پاکستان کے نام پر بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا

قوموں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں آ پ بھلا نہیں سکتے۔ پاکستانی تاریخ میں 16 دسمبر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے ہم اس دن کو نہیں بھول سکیں گے۔ سانحہ اے پی ایس کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جانا بھی چاہئے؛ لیکن سقوط ڈھاکہ کہیں پس منظر میں چلا گیا۔ 16 دسمبر سے آج کی تاریخ تک میں بس اخبارات دیکھتا ہی رہا کہ کہیں اس موضوع پر کوئی جامع کانفرنس، کوئی بیان ہی نظر آجائے لیکن مجھے مایوسی ہوئی۔ چلیے، ہم پہلے تھوڑا سا تاریخ میں جاتے ہیں۔

سلیم منصور خالد صاحب کی ایک تصنیف ہے ’’البدر‘‘ جس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں: ’’وہ لہو جو پاکستان کے نام پر بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔‘‘ صحیح تو کہتے ہیں، کیونکہ یہ وہ لوگ تھے کہ جب مشرقی پاکستان میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کی نااہلی، کوتاہ نظری، عیاشی اور جہالت کی وجہ سے ہوا مخالف سمت چلنے لگی تو اِن احمقوں نے پاکستان کی حفاظت کی قسمیں کھانا شروع کردیں۔ دن رات جلسے جلوس اور مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہمیں مشرقی پاکستان ایک الگ ملک نہیں بلکہ متحدہ پاکستان کے ساتھ چاہیے۔ سمجھانے والوں نے بہت سمجھایا، دلائل کے انبار لگائے لیکن یہ لوگ نہیں مانے اور مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے میں لگے رہے۔ ایک کے بعد ایک شہادتیں پیش کرتے رہے۔ خود تو مصیبت مول لیتے ہی تھے، ساتھ میں گھر والوں کو بھی مشکل میں ڈال دیتے تھے۔ نجانے کن ماؤں کے بچے تھے کہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔

اس کے بعد…

بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی، مکتی باہنی کو مزید مسلح کیا گیا اور مشرقی پاکستان پر علی الاعلان حملہ کر دیا گیا۔ فوج کی فوج جانے، سیاست دانوں کا رونا بھی رو لیا، لیکن ان سب سے پرے اصل قیمت تو انہوں نے ادا کی تھی جو البدر کا حصہ تھے۔ یہ البدر میجر ریاض حسین نے بنائی تھی۔ میجر ریاض حسین آج بھی حیات ہیں۔ آپ اِن تمام باتوں کی اُن سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بچہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ البدر کے رضاکاروں کی بھرتی ہورہی تھی کہ دو بچے آئے، ایک کچھ بڑا تھا، دوسرابالکل ہی نو عمر تھا۔ جو بڑا تھا، اُسے بھرتی کرلیا گیا۔ نوعمر کو گھر جانے کا کہا کہ ابھی بہت چھوٹے ہو۔ وہ کہتے ہیں جب ہم نے اُس سے گھر جانے کا کہا تو وہ اپنی ایڑی پر تن کے کھڑا ہوگیا۔ اُس نے کہا ’’میجر شیب، ہن تے بڑا ہوئے چھے‘‘ (میجر صاحب، اب تو میں بڑا ہو گیا ہوں)۔ میجر صاحب کہتے ہیں کہ وہ لمحہ عجیب سا تھا، یوں سمجھ لیجیے کہ قیامت کا لمحہ تھا۔ میں بالکل خاموش تھا، ایک لمحے میں مجھے حضرت معوذؓ اور حضرت معاذؓ یاد آ گئے۔ میں نے اس بچے کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ تم چھوٹے نہیں ہو، تم صدیوں سے بڑے ہو۔

میجر صاحب نے اُس دن غزوہ بدر کی نسبت سے اُن رضا کاروں کی فورس کا نام ’البدر‘ رکھا۔ میجر صاحب کہتے ہیں کہ جب میں قید کاٹ کر واپس وطن لوٹا تو گھر جانے کی بجائے سیدھا اچھرہ گیا، وہاں مودودی صاحبؒ سے ملا کیوں کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے جس نے ایسے سرفروش تیار کیے تھے کہ چند دن کی ٹریننگ ہوتی اور یہ فوجیوں کے سے جوش و جذبے سے لڑتے تھے۔

آپ ان کے عزم اور ولولے کا اندازہ ایسے لگائیں کہ چند ہی سال قبل حسینہ واجد نے بھارتی تھپکی پر پاکستان کے ساتھ کیے گئے جنگی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں 1971ء کے جرائم پر پھانسیوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ وہ جماعت اسلامی کے وابستگان کی نسل ختم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو پھانسیوں پر لٹکے؟ یہ کون لوگ ہیں جو عمر قید کاٹ رہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ’’البدر‘‘ تھے، جس نے پاکستان کے نام پر 1971ء میں بھی اپنا لہو دیا تھا اور آج بھی دے رہے ہیں۔ تب وہ لہو جوان تھا، آج وہ لہو بوڑھا ہے، لیکن رنگ تب بھی وہی تھا اور آج بھی وہی ہے۔ ان کا بلڈ گروپ ایک ہی ہے: پاکستان۔

ملا عبدالقادر کو جب پھانسی گھاٹ پر لے جانے لگے تو اُس سے قبل اُنہیں ’آفر‘ دی گئی کہ آپ معافی نامے پر دستخط کردیجیے، تصفیہ ہوجائے گا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب میں نے کچھ غلط نہیں کیا تو معافی نامہ کیسا؟ میں نے پاکستان کا دفاع کیا تھا، اُس وقت یہی میرا فرض تھا۔ آفرین ہے البدر کے ان شہداء پر کہ ایک کے بعد ایک اِن کو پھانسی گھاٹ پر بھیجا جا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ اِن کا عزم اور ولولہ کوئی متزلزل کرسکے۔ باریش چہرے، ہنستے مسکراتے ہوئے پھانسی گھاٹ کو چوم رہے ہیں، عمر قید کاٹ رہے ہیں اور ہمارے سینوں کو مزید بھاری کررہے ہیں۔

کیا ضرورت ہے اس سب کی؟ آپ وہاں معافی مانگ لیجیے، یہاں تو آپ کا لہو بھلایا جاچکا ہے۔ پہلے سقوط ڈھاکہ کانفرنسیں ہوتی تھیں، آپ کا ذکر خیر ہوتا تھا، لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب پیجز اور گروپس میں ہی ذکر ہوجاتا ہے۔ اور اب کی بار تو وہ بھی بہت کم تھا۔ اگلی مرتبہ اس سے بھی کم ہوجائے گا۔ آپ کی پھانسیاں آپ کا مسئلہ ہیں، یہاں پر تو اسے ’’ایک جماعت کے انفرادی معاملے‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آپ ہنستے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو چومتے جائیے، ہمیں یہاں ضمیر کی عدالت میں مجرم بناتے جائیے۔ ویسے آپ کو بھی کیا ضرورت ہے اس سب کی؟ پاکستان نے آپ کا لہو کبھی ’اون‘ (own) نہیں کیا، موجودہ نسل کو تو آپ کی قربانیوں کا علم ہی نہیں!

سلیم منصور خالد صاحب نے اپنے انتساب میں صحیح لکھا ہے: ’’وہ لہو جو پاکستان کے نام پر بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا‘‘