counter easy hit

ووٹ بینک کی سیاست آخر کب تک؟

یشتر سیاستدان، سابق فوجی و سول آفیسرز اور ان کے پیروکار تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی اور دعوؤں کاجائزہ لیتے وقت کئی بنیادی حقائق نظر انداز کر دیتے ہیں۔

بیشتر سیاستدان، سابق فوجی و سول آفیسرز اور ان کے پیروکار تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی اور دعوؤں کاجائزہ لیتے وقت کئی بنیادی حقائق نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بات کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے تحریک انصاف کے پاس جادو کی چھڑی ہو جس سے وہ صوبے اور نواحی علاقے کو لگنے والے زخم بھرسکتی ہے، وہ زخم جوکہ عشروں سے جاری خواص کی ماڈل گورننس کا نتیجہ ہیں جس میں عام آدمی کے بجائے حکمران سول و ملٹری اشرافیہ کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہی شور اس وقت مچایا گیا جب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ کو 30 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس جس طرح کی تعلیم دیتے ہیں، طلبہ کو قرون وسطیٰ کے دور کی فرسودہ سوچ سے باہر نہیں نکال سکتی؛ نہ ہی یہ نظام تعلیم طلبہ میں تنقیدی سوچ پیدا کر سکتا ہے۔اگر معاشرے کے پسماندہ طبقے کے بچے گلے سڑی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں تو یہ معاشرے اور ریاست کی اجتماعی ناکامی ہے۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ تقریباً تمام سیاستدانوں کی توجہ اپنے ووٹ بینک کے تحفظ اور اسے توسیع دینے پر ہوتی ہے اور یوں وہ خوف اور مصلحت پسندی کے یرغمال ہیں۔

پنجاب کے اوقاف و زکوٰۃ فنڈز کا ایک حصہ کالعدم تنظیم سے وابستہ مدارس کو براہ راست یا بالواسطہ ملتا ہے ، ان کے نام لیں تو ریاست کی دریا دلی سے مستفید ہونے کیلئے موجود ہونگے ؛ ۔دوسری بات یہ ہے کہ معاشرے میں عمومی طور پر مذہب کی چھاپ اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ کوئی سیاستدان مذہبی قو ت سے براہ راست ٹکر لے کر اپنے پیر پر گولی مارنے کی جرات نہیں کر سکتا، بھلے اس کا مقصد نیک ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی تازہ مثالیں لاہور اور فیض آباد کے دھرنے اور سابق وزیر قانون کی سوشل میڈیا پر منت سماجت سے بھرے پیغامات ہیں۔ شریف خاندان ان دنوں جس طرح اپنے گھر میں میلاد کی تقریبات میں شرکا کی خاطر مدارات کر رہا تھا۔تیسری بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹی سے وابستہ سینکڑوں مدارس کو براہ راست یا بالواسطہ ریاست سے فنڈنگ ہوتی ہے ۔ آج تک کسی نے پی پی پی اور ن لیگ کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کی سرپرستی کی جانب اشارہ نہیں کیا جو 1980 کی دہائی سے تسلسل کیساتھ ہو رہی ہیں۔ بھٹو، زرداری، شریف کے علاوہ جی ایچ کیو کی سیاسی مصلحت پسندی سے بھی سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمن مستفید ہوئے ہیں؛ جنرل پرویز مشرف جب صوبائی اسمبلی توڑنے سے مولانا فضل الرحمن کو روکنا چاہتے تھے ، انہوں نے مولانا کو ہمنواؤں سمیت عمرے پر سعودی عرب بھجوا دیا تھا۔

چوتھی بات یہ ہے کہ کراچی اور دیہی سندھ کے مبصرین اور تجزیہ کار یہ حقیقت نظر انداز کرکے کہ سندھی وڈیروں، جاگیرداروں اور ایم کیو ایم نے کس طرح دھونس کے ذریعے محصور ووٹروں کے بل پر اپنی د کانیں چمکائیں، کراچی والے اچھی طرح سب کچھ جانتے ہیں ، اس لئے وہ ایم کیو ایم یا پی پی پی جنہوں نے کراچی اور دیہی سندھ کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا کے بجائے پی ٹی آئی کا خیرمقدم کرنا زیادہ پسند کریں گے ۔ غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی غلط ہی نہیں ، خطرناک بھی ہے ، یہ عناصر پاکستانیوں کی اکثریت کے طرز زندگی کے حامی نہیں ہو سکتے مگر اس مدرسہ سوچ کا کیا جائے جو معاشرے میں پائی جاتی ہے اور عشر وں سے ذہن نشینی کا نتیجہ ہے ۔مخلص پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو پاور پالیٹکس سے دور رکھنا چاہیے جس سے دونوں خطے بری طرح متاثر ہوئے اور ان کی سماجی و سیاسی نشوو نما میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔دونوں صوبے خصوصی توجہ اور وسائل کے حق دار ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں کی اندھیر نگری اور کشمکش کے نتائج پر قابوپانے میں ان کی معاونت کریں۔